پتے ٹوٹ گئے ڈالی سے یہ کیسی رت آئی
مالا کے منکے بکھرے ہیں دے گئے یار جدائی
پھر درد جدائی کا جھگڑا نہ رہے کوئی
ہم نام ترا لے کر مر جائیں تو اچھا ہو
جدائی میں یہ دھڑکا تھا کہ آنچ ان پر نہ آ جائے
بجھائی آنسوؤں سے ہم نے آہ آتشیں برسوں
برق کا اکثر یہ کہنا یاد آتا ہے مجھے
تنکے چنوانے لگی ہم سے جدائی آپ کی
ادھر تو آنکھوں میں آنسو ادھر خیال میں وہ
بڑے مزے سے کٹی زندگی جدائی میں
خوب سی تنبیہ کرنا اے جدائی تو مجھے
گر کسی سے پھر کبھی قصد آشنائی کا کروں
آہ ملتے ہی پھر جدائی کی
واہ کیا خوب آشنائی کی
اگر ایک پل ہو جدائی تیری
تو صحرا مجھے سارا گھر بار ہو
ستم کرتے مل کر تو پھر لطف تھا
جدائی میں کیا آزمایا مجھے
وصل عین دوری ہے بے خودی ضروری ہے
کچھ بھی کہہ نہیں سکتا ماجرا جدائی کا
جدائی میں نہ آنا تھا نہ آئی
مجھے ظالم قضا نے مار ڈالا
محبت میں جدائی کا مزا مضطرؔ نہ جانے دوں
وہ بلبل ہوں کہ گل پاؤں تو پتا درمیاں رکھوں
جدائی میں لب خشک ہیں چشم تر ہیں
ادھر بھی شۂ بحر و بر دیکھ لینا
اللہ رے تاریکی خورشید جدائی
ہے صبح میں اپنی شب دیجور کی صورت
مزہ میں دم بھرا وارث کی سچی آشنائی کا
یہ کیا معلوم تھا ہم کو کہ غم ہوگا جدائی کا
رہے تیری قدرت کا جب تک عمل
یہی اس کی فرماں روائی رہے
گر ملوں تو تند خو ہو گالیاں دیتے ہو تم
دور رہنے سے ستاتی ہے جدائی آپ کی
aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere