محبت خوف رسوائی کا باعث بن ہی جاتی ہے
طریق عشق میں اپنوں سے پردا ہو ہی جاتا ہے
مرے صیاد کو با وصف اسیری ہے یہ خوف
میں قفس میں بھی بنا لوں گا گلستاں کوئی
اک چہرے سے پیار کروں میں اک سے خوف لگے ہے مجھ کو
اک چہرہ اک آئینہ ہے اک چہرہ پتھر لگتا ہے
نہ نشاط وصال نہ ہجر کا غم نہ خیال بہار نہ خوف خزاں
نہ سقر کا خطر ہے نہ شوق ارم نہ ستم سے حذر نہ کرم سے غرض
بندہ قصوروار ہے خالق مرا غفور
اب خوف دل میں بھلا ہم کبھو کریں
بادہ خوار تم کو کیا خورشید محشر کا ہے خوف
چھا رہا ہے ابر رحمت شامیانے کی طرح
علویؔ کو ز بس تھا خوف غنا کہا یار نے با ہما لطف و عطا
کیوں ڈرتا ہے آ آغوش میں آ تو اور نہیں میں اور نہیں
جو مرنے سے موئے پہلے انہیں کیا خوف دوزخ کا
دل اپنا نار ہجرت سے جلا لے جس کا جی چاہے
ارادہ آج بے خوف و خطر ہے ان کی محفل کا
محبت میں کوئی دیکھے تو یہ دیوانہ پن اپنا
خزاں کا خوف تھا جن کو چمن میں
انہیں پھولوں کے چہرے زرد نکل
عاشق جاں نثار کو خوف نہیں ہے مرگ کا
تیری طرف سے اے صنم جور و جفا جو ہو سو ہو
ہو گیا دام خوف غم سے رہا
جو تمہارا اسیر گیسو ہے
دل بے تاب سنبھل خوف ہے رسوائی کا
حال دیکھے نا کوئی مضطربانہ تیرا
ہے کیا خوف عارفؔ کو محشر کے دن
وکالت پے جب پیر مختار ہو
جوش جنوں میں داغ جگر میرے بھرے
گلچیں ہمارے باغ کو خوف خزاں نہیں
خوبرو خود آ ملے جب پھر کسی کا خوف کیا
یہ وہ جادو ہے جسے تسخیر کی حاجت نہیں
گوڑھ ظلمات اندھیر غباراں راہ نے خوف خطر دے ہو
آب حیات منور چشمے سائے زلف عنبر دے ہو
کوچۂ جاناں میں جانا ہے محال
خوف ہے اس سنگ دل خونخوار سے
خوف بدنامی سے تجھ پاس نہ آئے ورنہ
ہم کئی بار سن اے یار اٹھے اور بیٹھے
حیران ہے تیرے مذہب سے سب گبرو مسلماں اے احقرؔ
یہ اس کی گلی کا رستہ ہے پر خوف بھی ہے پر خار بھی ہے
اس کے کوچے میں کہاں کشمکش بیم و رجا
خوف دوزخ بھی نہیں خواہش جنت بھی نہیں
گلزار میں دنیا کے ہوں جو نخل بھچنپا
خواہش نہ ثمر کی نہ میاں خوف قہر کا
aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere