Sufinama

خوف پر اشعار

کچھ تو کر خوف خدا دل میں اے ظالم اپنے

دل عشاق کو اس طرح سے برباد نہ کر

بانکے لال

محبت خوف رسوائی کا باعث بن ہی جاتی ہے

طریق عشق میں اپنوں سے پردا ہو ہی جاتا ہے

مضطر خیرآبادی

بادہ خوار تم کو کیا خورشید محشر کا ہے خوف

چھا رہا ہے ابر رحمت شامیانے کی طرح

امیر مینائی

علویؔ کو ز بس تھا خوف غنا کہا یار نے با ہما لطف و عطا

کیوں ڈرتا ہے آ آغوش میں آ تو اور نہیں میں اور نہیں

امداد علی علوی

اک چہرے سے پیار کروں میں اک سے خوف لگے ہے مجھ کو

اک چہرہ اک آئینہ ہے اک چہرہ پتھر لگتا ہے

واصف علی واصف

نہ نشاط وصال نہ ہجر کا غم نہ خیال بہار نہ خوف خزاں

نہ سقر کا خطر ہے نہ شوق ارم نہ ستم سے حذر نہ کرم سے غرض

بیدم شاہ وارثی

مرے صیاد کو با وصف اسیری ہے یہ خوف

میں قفس میں بھی بنا لوں گا گلستاں کوئی

حیات وارثی

نہیں آتی قضا مقتل میں خوف تیغ قاتل سے

الٰہی خیر کیوںکر دم تن بسمل سے نکلے گا

ہشم لکھنؤی

جوش جنوں میں داغ جگر میرے بھرے

گلچیں ہمارے باغ کو خوف خزاں نہیں

کوثر خیرآبادی

ہجوم داغ محبت میں لالہ زار ہوں میں

خزاں کا خوف نہیں جسکو وہ بہار ہوں، میں

نجیب لکھنوی

خوبرو خود آ ملے جب پھر کسی کا خوف کیا

یہ وہ جادو ہے جسے تسخیر کی حاجت نہیں

کشن سنگھ عارفؔ

گوڑھ ظلمات اندھیر غباراں راہ نے خوف خطر دے ہو

آب حیات منور چشمے سائے زلف عنبر دے ہو

سلطان باہو

کوچۂ جاناں میں جانا ہے محال

خوف ہے اس سنگ دل خونخوار سے

کشن سنگھ عارفؔ

بندہ قصوروار ہے خالق مرا غفور

اب خوف دل میں بھلا ہم کبھو کریں

عطا حسین فانی

جو مرنے سے موئے پہلے انہیں کیا خوف دوزخ کا

دل اپنا نار ہجرت سے جلا لے جس کا جی چاہے

کشن سنگھ عارفؔ

ارادہ آج بے خوف و خطر ہے ان کی محفل کا

محبت میں کوئی دیکھے تو یہ دیوانہ پن اپنا

حسرت موہانی

خزاں کا خوف تھا جن کو چمن میں

انہیں پھولوں کے چہرے زرد نکل

پرنم الہ آبادی

عاشق جاں نثار کو خوف نہیں ہے مرگ کا

تیری طرف سے اے صنم جور و جفا جو ہو سو ہو

میر محمد بیدار

ہو گیا دام خوف غم سے رہا

جو تمہارا اسیر گیسو ہے

آسی غازیپوری

دل بے تاب سنبھل خوف ہے رسوائی کا

حال دیکھے نا کوئی مضطربانہ تیرا

کیفی حیدرآبادی

ہے کیا خوف عارفؔ کو محشر کے دن

وکالت پے جب پیر مختار ہو

کشن سنگھ عارفؔ

آتش دوزخ کا ہم تر دامنوں کو کیا ہے خوف

واعظا جلتی نہیں ہے ہیزم تر آگ میں

شاہ نصیر

خوف بدنامی سے تجھ پاس نہ آئے ورنہ

ہم کئی بار سن اے یار اٹھے اور بیٹھے

عبدالرحمٰن احسان دہلوی

حیران ہے تیرے مذہب سے سب گبرو مسلماں اے احقرؔ

یہ اس کی گلی کا رستہ ہے پر خوف بھی ہے پر خار بھی ہے

احقر بہاری

جان کا کچھ خوف جانبازان الفت کو نہیں

آپ دکھلاتے ہیں کیوں تیغ سفاہانی مجھے

صادق لکھنوی

اس کے کوچے میں کہاں کشمکش بیم و رجا

خوف دوزخ بھی نہیں خواہش جنت بھی نہیں

آسی غازیپوری

گلزار میں دنیا کے ہوں جو نخل بھچنپا

خواہش نہ ثمر کی نہ میاں خوف قہر کا

خواجہ رکن الدین عشقؔ

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

متعلقہ موضوعات

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے