Sufinama

خواب پر اشعار

خواب فارسی زبان کے'خوابدین'

مصدر سے ماخوذ ہے ۔اوستائی زبان مں اس کو'خوفن' اور سنسکرت مںل 'خوپن' کہتے ہیں۔ ایک امکان ہے کہ اردو مںا ان دو زبانوں میں سے کسی ایک سے آیا ہو۔ البتہ اغلب امکان ییں ہے کہ یہ لفظ فارسی زبان سے اردو مںت داخل ہوا ہے ۔ ١٥٦٤ء میں حسن شوقی کے دیوان مں اس کا استعمال ملتا ہے۔سو جانے کے عمل یا کتں یانندن وغیرہ کے لئے اس کا استعمال کیا جاتا ہے۔تصوف میں خواب فنائے اختیاری کو کہتے ہیں جو عالم بشریت سے ہو ۔ بعض لوگ ہستی مجازی کوبھی خواب کہتے ہیں۔

دنیا ہے خواب حاصل دنیا خیال ہے

انسان خواب دیکھ رہا ہے خیال میں

سیماب اکبرآبادی

میں ہوں ایک عاشق بے نوا تو نواز اپنے پیام سے

یہ تری رضا پہ تری خوشی تو پکار لے کسی نام سے

فنا بلند شہری

جگا کر خواب آسائش سے بیدارؔ آہ ہستی میں

عدم آسود گاں کو لا کے ڈالا ہے تباہی میں

میر محمد بیدار

کس کو سناؤں کس سے کہوں ماجرائے غم

گونگے کا خواب ہے یہ مری داستاں نہیں

کوثر خیرآبادی

عید سے بھی کہیں بڑھ کر ہے خوشی عالم میں

جب سے مشہور ہوئی ہے خبر آمد یار

ابراہیم عاجزؔ

قفس میں بھی وہی خواب پریشاں دیکھتا ہوں میں

کہ جیسے بجلیوں کی رو فلک سے آشیاں تک ہے

بیدم شاہ وارثی

اب خواب میں بھی دید کو آنکھیں ترس گئیں

بے خواب کر دیا غم شب زندادار نے

کامل شطاری

کچھ خبر ہے تجھ کو اے آسودۂ خواب لحد

شب جو تیری یاد میں ہم تا سحر رویا کئے

حسرت موہانی

دہر فانی میں ہنسی کیسی خوشی کیا چیز ہے

رونے آئے تھے یہاں دو چار دن کو رو گئے

سنجر غازیپوری

زندگی جس میں سانس لیتی تھی

وہ زمانہ خیال و خواب ہے آج

سیماب اکبرآبادی

اس قدر یاد ہے بس عشق کی روداد حیاتؔ

جیسے دیکھا تھا کبھی خواب پریشاں کوئی

حیات وارثی

تیرے در سے نہ اٹھا ہوں نہ اٹھوں گا اے دوست

زندگی تیرے بنا خواب ہے افسانہ ہے

فنا بلند شہری

عارفاؔ میں خواب غفلت میں رہا جب بے خبر

جاگ کر میں نے سنا دلبر پیارا پھر گیا

کشن سنگھ عارفؔ

حال دل ہے کوئی خواب آور فسانہ تو نہیں

نیند ابھی سے تم کو اے یاران محفل آ گئی

حفیظ ہشیارپوری

اے عرشؔ آؤ خاک میں دلی کے سو رہیں

مٹ کر بھی خواب گاہ یہ اہل ہنر کی ہے

عرش گیاوی

میری یقیں نہ ہو تو ستاروں سے پوچھنا

بے خواب چاندنی بھی رہی تیری یاد میں

خلش دہلوی

آج تو قیصرؔ حزیں زیست کی راہ مل گئی

آ کے خیال و خواب میں شکل دکھا گیا کوئی

قیصرؔ شاہ وارثی

خدا جانے تھا خواب میں کیا سماں

ارے درد دل کیوں جگایا مجھے

بے نظیر شاہ وارثی

آگ لگی وہ عشق کی سر سے میں پاؤں تک جلا

فرط خوشی سے دل مرا کہنے لگا جو ہو سو ہو

غم جاناں سے دل مانوس جب سے ہو گیا مجھ کو

ہنسی اچھی نہیں لگتی خوشی اچھی نہیں لگتی

پرنم الہ آبادی

کیا کہوں تجھ سے اب کے میں تجھ کو

کس طرح دیکھتا ہوں خواب کے بیچ

خواجہ میر اثر

کاہکشاں کے خواب مظفرؔ دیکھ رہا تھا

اور بیداری ریت کے ٹیلے پر لے آئی

مظفر وارثی

جاگتے کا خواب سمجھو ورنہ دنیا ہے بھی کیا

اس کی حسرت ہے بھی کیا اس کی تمنا ہے بھی کیا

مضطر خیرآبادی

ان کو دعویٰ یوسفی آسیؔ

خواب میں بھی جو آ نہیں سکتے

آسی غازیپوری

بیداری ہو یا خواب ہو ہر حال میں ہے وصل

جو صاحب نسبت ہیں مگر اہل یقیں ہیں

مردان صفی

ہے عالم خواب حال دنیا

دیکھے گا جو چشم وا کرے گا

میر محمد بیدار

رات کو بے خبر رہے آپ تو خواب ناز میں

نیند نہ آئی صبح تک ہم کو شب دراز میں

جگرؔ وارثی

کوئی لائے اس کو ذرا ہوش میں

یہ واعظ ہے کس خواب خرگوش میں

ریاض خیرآبادی

جب آگ دھدکتی ہو اس پر مت چھیٹیو تیل خدا را تم

کیا دل کی خوشی کو پوچھو ہو اے یارو اک ناشاد ستی

غلام نقشبند سجادؔ

کچھ فکر تمہیں عقبیٰ کی نہیں احقرؔ یہ بڑی نادانی ہے

دنیا کی خوشی کیا ایذا کیا یہ حادث ہے وہ فانی ہے

احقر بہاری

اس سیہ بخت کی راتیں بھی کوئی راتیں ہیں

خواب راحت بھی جسے خواب پریشاں ہو جائے

بیدم شاہ وارثی

کہاں چین خواب عدم میں تھا نہ تھا زلف یار کا خیال

سو جگا کے شور نے مجھے اس بلا میں پھنسا دیا

شاہ نیاز احمد بریلوی

خواب ہے نہ بیداری شکر ہے نہ ہوشیاری

لطف لذت کیف بے خمار مجھ سے پوچھ

نثار اکبرآبادی

کیا مری آنکھ عدم بیچ لگی تھی اے چرخ

کیا اس خواب سے تو نے مجھے بیدار عبث

احسن اللہ خاں بیان

پل بھی ہے فخر جونپور آسیؔ

خواب گاہ جناب شیخو ہے

آسی غازیپوری

نہ فقط یار بن شراب ہے تلخ

عیش و آرام و خورد و خواب ہے تلخ

احسن اللہ خاں بیان

مجھ سے نہ اب حقیقت تعبیر پوچھئے

وصل صنم کے نقش نظر آئے خواب میں

اختر وارثی

شمع کے جلوہ بھی یارب کیا خواب تھا جلنے والوں کا

صبح جو دیکھا محفل میں پروانہ ہی پروانہ تھا

بیدار شاہ وارثی

جوں مثال اس کی نمودار ہوئی توں ہی بیاںؔ

طپش دل نے کیا خواب سے بیدار مجھے

احسن اللہ خاں بیان

دل ہے بیتاب چشم ہے بے خواب

جان بیدارؔ کیا کروں تجھ بن

میر محمد بیدار

رات بھر پھرتا تھا کنعاں میں زلیخا کا خیال

مصر کو یوسف چلے اس خواب کی تعبیر کو

بے نظیر شاہ وارثی

اے زہے طالعے بیدار کہ ہم خواب ہے وہ

میں تو اس رات کو سمجھا ہوں، کرامات کی رات

کیفی حیدرآبادی

نیند آوے گی نہ تنہا بیدارؔ

تا نہ خواب اس سے بہم کیجئے گا

میر محمد بیدار

خوشی ہے زاہد کی ورنہ ساقی خیال توبہ رہے گا کب تک

کہ تیرا رند خراب افقرؔ ولی نہیں پارسا نہیں ہے

افقر موہانی

میرا بخت خوابیدہ بیدار ہو

تیرا خواب میں مجھ کو دیدار ہو

کشن سنگھ عارفؔ

مت کہو مجھ سیں قصۂ فرہاد

خواب شیریں میں آج سوتا ہوں،

سراج اورنگ آبای

مسند کم خواب شاہاں کو کہاں حاصل یہ قدر

منزلت تیرے گداؤں کی جو خاکستر میں ہے

بہرام جی

بد مزاجی ناخوشی آزردگی کس واسطے

گر برے ہم ہیں تو ہو جئے اور سے جا آشنا

میر محمد بیدار

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

متعلقہ موضوعات

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے