ملا ہے جو مقدر میں رقم تھا
زہے قسمت مرے حصے میں غم تھا
اگر ہم تم سلامت ہیں کبھی کھل جائے گی قسمت
اسی دور لیالی میں اسی گردوں کے چکر میں
کجی میری قسمت کی پھر دیکھنا
ذری اپنی ترچھی نظر دیکھئے
بگاڑ قسمت کا کیا بتاؤں جو ساتھ میرے لگی ہوئی ہے
کہیں کہیں سے کٹی ہوئی ہے کہیں کہیں سے مٹی ہوئی ہے
کچھ نہ ہو اے انقلاب آسماں اتنا تو ہو
غیر کی قسمت بدل جائے میری تقدیر سے
ان کو گل کا مقدر ملا
مجھ کو شبنم کی قسمت ملی
خوشی سے دور ہوں نا آشنائے بزم عشرت ہوں
سراپا درد ہوں وابستۂ زنجیر قسمت ہوں
دیکھنا ان کا تو قسمت میں نہیں
دیکھنے والے کو دیکھا چاہیے
بدلتی ہی نہیں قسمت محبت کرنے والوں کی
تصور یار کا جب تک فناؔ پیہم نہیں ہوتا
لذتیں دیں غافلوں کو قاسم ہشیار نے
عشق کی قسمت ہوئی دنیا میں غم کھانے کی طرح
چمک اٹھی ہے قسمت ایک ہی سجدہ میں کیا کہنا
لئے پھرتا ہے پیشانی پہ نقش آستاں کوئی
اپنی قسمت پہ فرشتوں کی طرح ناز کروں
مجھ پہ ہو جائے اگر چشم عنایت تیری
تکیے میں کیا رکھا ہے خط غیر کی طرح
دیکھوں تو میں نوشتۂ قسمت مرا نہ ہو
بنے شعلے بجلی کے قسمت سے میری
جو تنکے تھے کچھ آشیانے کے قابل
یہ قسمت داغ جس میں درد جس میں
وہ دل ہو لوٹ دست نازنیں پر
قسمت کی نارسائیاں بعد فنا رہیں
مر کے بھی دفن ہو نہ سکا کوئے یار میں
اے قاصد اشک و پیک صبا اس تک نہ پیام و خط پہنچا
تم کیا کرو ہاں قسمت کا لکھا یہ بھی نہ ہوا وہ بھی نہ ہوا
وائے قسمت شمع پوچھے بھی نہ پروانوں کی بات
اور بے منت ملیں بوسے لب گل گیر کو
ملامت ہی لکھی ہے سربسر کیا
مری قسمت میں تیرے پاسباں سے
مرید پیر مے خانہ ہوئے قسمت سے اے ناصح
نہ جھاڑیں شوق میں پلکوں سے ہم کیوں صحن مے خانہ
اس کی ناکامئ قسمت پر کہاں تک روئیے
غرق ہو جائے سفینہ جس کا ساحل کے قریب
ایک دن وہ میرے گھر ہے ایک دن وہ اس کے گھر
غیر کی قسمت بھی ہے میرے مقدر کا جواب
رہ کے آغوش میں اے بحر کرم عاشق کو
قسمت سوختۂ سبزۂ ساحل دینا
چھٹے گی کیسے مظفرؔ سیاہی قسمت کی
نکل تو آئے گا خورشید رات ڈھلنے سے
جلوۂ ہر روز جو ہر صبح کی قسمت میں تھا
اب وہ اک دھندلا سا خواب دوش ہے تیرے بغیر
ہائے اس مرد کی قسمت جو ہوا دل کا شریک
ہائے اس دل کا مقدر جو بنا دل میرا
میری آنکھ کا تارا ہے آنسو میری قسمت کا
قسمت کو میں روتا ہوں قسمت مجھ کو روتی ہے
نگاہ یار جسے آشنائے راز کرے
وہ اپنی خوبیٔ قسمت پہ کیوں نہ ناز کرے
کوشش تو بہت کی میں نے مگر قسمت کی نہ تھی کچھ اپنی خبر
لے صبر سے کام دل مضطر جب داد نہیں فریاد نہ کر
وصال یار جب ہوگا ملا دے گی کبھی قسمت
طبیعت میں طبیعت کو دل و جاں میں دل و جاں کو
حسینوں نے قسمت میں اصلاح دی
نصیبوں کا لکھا دھرا رہ گیا
صدا ہی میری قسمت جوں صدائے حلقۂ در ہے
اگر میں گھر میں جاتا ہوں تو وہ باہر نکلتا ہے
مضطرؔ مجھے چاہت میں سجدوں کی ضرورت کیا
خاک در جاناں نے قسمت مری چمکا دی
بتا کر شوخیاں اس کو ادا کی
ڈبوئی ہم نے قسمت مدعا کی
پھر امیدوں کو شعاع کامرانی کر عطا
قسمت تاریک کو ہنگامۂ تنویر دے
ماتھا میں رگڑتا ہوں قسمت مری چمکا دے
تجھ میں تو شرارے ہیں سنگ در جانانہ
ہجر کے آلام سے چھوٹوں یہ قسمت میں نہیں
موت بھی آنے کا گر وعدہ کرے باور نا ہو
دردؔ کے دل کو بنا مخزن فوارۂ نور
میری تاریکیٔ قسمت کے اجالے ساقی
صیاد اور گلچیں دونوں کی بن پڑی ہے
بلبل کی پھوٹی قسمت فصل بہار کیا ہے
ہم تلخیٔ قسمت سے ہیں تشنہ لب بادہ
گردش میں ہے پیمانہ پیمانے سے کیا کہئے
ریاضؔ اپنی قسمت کو اب کیا کہوں میں
بگڑنا تو آیا سنورنا نہ آیا
وہ عزم باقی نہ رزم باقی نہ شوکت و شان بزم باقی
ہماری ہر بات مٹ چکی ہے کہ ہم کو قسمت مٹا رہی ہے
خط قسمت مٹاتے ہو مگر اتنا سمجھ لینا
یہ حرف آرزو ہاتھوں کی رنگت لے کے اٹھیں گے
ترا غم سہنے والے پر زمانہ مسکراتا ہے
مگر ہر شخص کی قسمت میں تیرا غم نہیں ہوتا
aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere