حضرت امیر خسرو کا شمار فارسی کے مشہور اساتذہ میں ہوتا ہے۔آپ کی شاعری میں "وحدت الوجود" کی گہری چھاپ بھی نمایاں ہے۔ آپ کے کلام میں فصاحت و بلاغت، سادگی، تسلیم و رضا ادب و احترام ہے۔ نادر تشبیہات، والہانہ جذبات، لطافت زبان و بیان اور شیریں کلام، فلسفیانہ، حکیمانہ اور صوفیانہ افکار حضرت امیر خسرو کی شاعری کے مخصوص رنگ ہیں۔ اُنھوں نے اپنی شاعری سے اپنے ہم وطنوں کو حُب الوطنی کا درس دیا ہے۔ اس کے علاوہ اُنھوں نے اپنی شاعری سے آدمیت کو انسانیت کا درس دیا اور اُن کی تعلیمات اور پیغام میں آپسی بھائی چارگی، زہد و تقویٰ اور خدمت خلق کا درس بھی موجود ہے۔ عظیم شاعر و موسیقی کارطوطیِ ہند،ابو الحسن امیر خسرو، صرف شعر و ادب کی دنیا کا ہی معتبر حوالہ نہ تھے،وہ ہماری مشترکہ گنگا جمنی تہذیب و ثقافت کا شناخت نامہ بھی تھے۔ وہ ہندو مسلم وحدت، ملکی سالمیت و تحفظ اور قومی و لسانی وفاقیت کا مینارۂ نور تھے۔ زیر نظر کتاب امیر خسرو کی شاعری کا ایک زخیم اور کامل دیوان ہے ، جو کہ امیر خسرو کی غزلیات،قصائد،قطعات،اور رباعیات پر مشتمل ہے۔
امیرخسرو کی پیدائش 651ھ موافق 1253ء میں موجودہ ضلع کانسی رام نگر، اتر پردیش کے پٹیالی میں ہوئی۔ نام یمین الدین اور لقب ابوالحسن تھا۔ عام بول چال میں آپ کو امیر خسرو کہا جا تا ہے۔
آپ کے والد امیر سیف الدین لاچین قوم کےایک ترک سردار تھے۔ منگولوں کے حملوں کے وقت ہندوستان آئے اور پٹیالی (آگرہ) میں سکونت اختیار کیا۔ ان کى والدہ ہندوستانی تھیں۔ آٹھ سال کی عمر میں یتیم ہوئے۔ کچھ عرصہ بعد یہ خاندان دہلی منتقل ہوگیا۔
امیرخسرو نے سلطنت دہلی کے آٹھ بادشاہوں کا زمانہ دیکھا۔ آپ نے برصغیر میں اسلامی سلطنت کے ابتدائی ادوار کی سیاسی، سماجی اور ثقافتی زندگی میں سرگرم حصہ لیا۔ محبوب الہی خواجہ نظام الدین اولیا کے بڑے چہیتے مرید تھے۔ خسرو کو بھی مرشد سے انتہائی عقیدت تھی۔ خسرو نے ہر صنف شعر، مثنوی، قصیدہ، غزل، اردو دوہے، پہیلیاں اور گیت وغیرہ میں طبع آزمائی کی۔ غزل میں پانچ دیوان یادگار چھوڑے۔ ہندوستانی موسیقی میں ترانہ، قول اور قلبانہ انہی کی ایجاد ہے۔ بعض ہندوستانی راگنیوں میں ہندوستانی پیوند لگائے۔ راگنی (ایمن کلیان) جو شام کے وقت گائی جاتی ہے انہی کی ایجاد ہے۔ کہتے یہ کہ ستار پر تیسرا تار آپ ہی نے چڑھایا۔ خواجہ نظام الدین اولیا کے مرید تھے اور انہیں کے قدموں میں دفن ہوئے۔
آپ کا تاریخ وصال 18 شوال المکرم 725ھ موافق 1325ء ہے۔
امیر خسرو شاعری سے ہی نہیں بلکہ موسیقی سے بھی کافی دلچسپی رکھتے تھے۔ ہندوستانی کلاسیکی موسیقی کی ایک اہم شخصیت بھی مانے جاتے ہیں۔ کلاسیکی موسیقی کے اہم ساز طبلہ اور ستار انہی کی ایجاد مانی جاتی ہے۔ فن موسیقی کے اجزا جیسے خیال اور ترانہ بھی انہیں کی ایجاد ہے۔ دنیا میں اردو کا پہلا شعر امیرخسرو ہی کی طرف منسوب ہے۔ اس سلسلے میں اردو کے ابتدائی موجدین میں ان کا نام شمار ہے۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets