Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

مصنف : امیر خسرو

اشاعت : 001

سن اشاعت : 1975

صفحات : 551

کلیات غزلیات خسرو

کتاب: تعارف

غزل گوئی میں امیر خسرو کے پیش رو سعدی شیرازی ہیں ۔ آپ کی شاعری کا شباب عین اس وقت شروع ہوا جب سعدی اپنا شباب گزار چکے تھے۔ سعدی ، شیراز میں بیٹھے ہوئے غزل سرائی کر تے ہیں اور یہاں دہلی میں اہل ذوق ان کی شعر نوائی سے لطف اندوز ہوتے ہیں ، چنانچہ خسرو نے بھی غزل گوئی میں شیخ سعدی کی پیر وی کی۔ اس وجہ سے آپ کو طوطی ہند کا لقب ملا۔ امیر خسرو صرف مقلد نہیں تھے۔ انہوں نے غزل میں بعض نئی باتیں بھی پیدا کی ہیں سعدی نے غزل کے مزاج کے مطابق اسے زبان دی اور اس کے دامن کو پھیلا یا۔ اس لئے انہیں غزل کا امام کہا جاتا ہے لیکن ان کے غزلیات میں جذبات کی گرمی اور سوزو گداز کی تڑپ کم ہے۔ امیر خسرو نے اس کمی کو پورا کیا ہے۔ غزل کی روح کیا ہے۔ سوزوگداز ، جزبات واحساسات ، عشق ومحبت ، واردات قلبی ، محبوب کی بے نیازی ، ناز آفرینی ، عاشق کی نیاز مندی اور خاکساری ، فراق کی اذیتیں ، جزبات کی گرمی ، احساسات کی شورش ، جوش وحرارت جو کہ غزل کی خصوصیات ہیں ، ان کی غزلوں میں موجود ہیں۔ انہوں نے ہر صنف شعر، مثنوی، قصیدہ، غزل، اردو دوہے ،پہیلیاں، گیت وغیرہ میں طبع آزمائی کی۔ غزل میں پانچ دیوان یادگارچھوڑے۔ انہیں دیوانوں کو سامنے رکھ کر اقبال صلاح الدین نے خسرو کی غزلوں کی ایک ضخیم کلیات ترتیب دی ہے جو چار جلدوں پر مششتمل ہے۔زیر نظر جلد چہارم ہے۔

.....مزید پڑھئے

مصنف: تعارف

امیرخسرو کی پیدائش 651ھ موافق 1253ء میں موجودہ ضلع کانسی رام نگر، اتر پردیش کے پٹیالی میں ہوئی۔ نام یمین الدین اور لقب ابوالحسن تھا۔ عام بول چال میں آپ کو امیر خسرو کہا جا تا ہے۔

آپ کے والد امیر سیف الدین لاچین قوم کےایک ترک سردار تھے۔ منگولوں کے حملوں کے وقت ہندوستان آئے اور پٹیالی (آگرہ) میں سکونت اختیار کیا۔ ان کى والدہ ہندوستانی تھیں۔ آٹھ سال کی عمر میں یتیم ہوئے۔ کچھ عرصہ بعد یہ خاندان دہلی منتقل ہوگیا۔

امیرخسرو نے سلطنت دہلی کے آٹھ بادشاہوں کا زمانہ دیکھا۔ آپ نے برصغیر میں اسلامی سلطنت کے ابتدائی ادوار کی سیاسی، سماجی اور ثقافتی زندگی میں سرگرم حصہ لیا۔ محبوب الہی خواجہ نظام الدین اولیا کے بڑے چہیتے مرید تھے۔ خسرو کو بھی مرشد سے انتہائی عقیدت تھی۔ خسرو نے ہر صنف شعر، مثنوی، قصیدہ، غزل، اردو دوہے، پہیلیاں اور گیت وغیرہ میں طبع آزمائی کی۔ غزل میں پانچ دیوان یادگار چھوڑے۔ ہندوستانی موسیقی میں ترانہ، قول اور قلبانہ انہی کی ایجاد ہے۔ بعض ہندوستانی راگنیوں میں ہندوستانی پیوند لگائے۔ راگنی (ایمن کلیان) جو شام کے وقت گائی جاتی ہے انہی کی ایجاد ہے۔ کہتے یہ کہ ستار پر تیسرا تار آپ ہی نے چڑھایا۔ خواجہ نظام الدین اولیا کے مرید تھے اور انہیں کے قدموں میں دفن ہوئے۔

آپ کا تاریخ وصال 18 شوال المکرم 725ھ موافق 1325ء ہے۔

امیر خسرو شاعری سے ہی نہیں بلکہ موسیقی سے بھی کافی دلچسپی رکھتے تھے۔ ہندوستانی کلاسیکی موسیقی کی ایک اہم شخصیت بھی مانے جاتے ہیں۔ کلاسیکی موسیقی کے اہم ساز طبلہ اور ستار انہی کی ایجاد مانی جاتی ہے۔ فن موسیقی کے اجزا جیسے خیال اور ترانہ بھی انہیں کی ایجاد ہے۔ دنیا میں اردو کا پہلا شعر امیرخسرو ہی کی طرف منسوب ہے۔ اس سلسلے میں اردو کے ابتدائی موجدین میں ان کا نام شمار ہے۔

.....مزید پڑھئے

مصنف کی مزید کتابیں

مصنف کی دیگر کتابیں یہاں پڑھئے۔

مزید

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے