Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

by امیر خسرو

امیر خسرو کا ہندوی کلام

مع نسخۂ برلن ذخیرۂ اشپرنگر

by امیر خسرو

مصنف : امیر خسرو

ایڈیٹر : گوپی چند نارنگ

سن اشاعت : 2008

صفحات : 221

ISBN نمبر /ISSN نمبر : 969-35-2166-8

امیر خسرو کا ہندوی کلام

کتاب: تعارف

امیر خسرو کی ہندی شاعری کو کئی معنی کر فارسی پر فوقیت حاصل ہے، اردو ہندی، ہندوستانی یا کھڑ بولی کی پہلی واضح شکل امیر خسرو کی ہندی شاعری میں ہی نظر آتی ہے۔ ان کے ہندی کلام کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ہندی کا کلام اتنا ہی ہے جتنا فارسی کا کلام ہے اور فارسی کا کلام ایک تحقیق کے مطابق تین لاکھ ابیات پرمشتمل ہے گویا کہ تین لاکھ کے قریب ان کے ہندی کے ابیات بھی ہیں، امیر خسرونے ہندی اور ایرانی موسیقی کی ازسرنوتدوین کی اور اسے اپنی اختراعات اور ایجادات سے مالا مال کیا۔ زیر نظر کتاب میں گوپی چند نارنگ نے نسخہ برلن کے حصول کے بعد جو حقائق پیش کیے، اس سے خسرو کے ہندوی کلام کا دائرہ وسیع ہوا ہے، محمود شیرانی کو امید ہی نہیں تھی کہ خسرو کاہندوی سرمایہ کبھی ہاتھ بھی آسکتا ہے ، تاہم گوپی چندنا رنگ نے اشپرنگر کے نشان زد نسخہ برلن سے حاصل کرکے شائع کردیا ہے ۔ یہ وہ نسخہ ہے جس کے متعلق شمس اللہ قادری نے اشپرنگر کے حوالہ سے اپنی کتاب ’’اردوئے قدیم ‘‘میں لکھاتھا اور اس نسخہ کو اشپرنگر اپنے 1856میں اپنے وطن جرمنی لے گیے تھے، یہی وہ نسخہ ہے ، جو گوپی چند نارنگ کو1982میں سفر یورپ کے دوران برلن میں ہاتھ لگا۔ گوپی چند نارنگ نے نسخہ برلن کے حصول کے بعد جو حقائق پیش کیے ، اس سے خسرو کے ہندوی کلام کا دائرہ وسیع ہوا ہے ۔ بعید نہیں کہ مرورِزمانہ کی گردشوں سے دائرہ خسرو اور بھی وسیع ہو۔

.....مزید پڑھئے

مصنف: تعارف

امیرخسرو کی پیدائش 651ھ موافق 1253ء میں موجودہ ضلع کانسی رام نگر، اتر پردیش کے پٹیالی میں ہوئی۔ نام یمین الدین اور لقب ابوالحسن تھا۔ عام بول چال میں آپ کو امیر خسرو کہا جا تا ہے۔

آپ کے والد امیر سیف الدین لاچین قوم کےایک ترک سردار تھے۔ منگولوں کے حملوں کے وقت ہندوستان آئے اور پٹیالی (آگرہ) میں سکونت اختیار کیا۔ ان کى والدہ ہندوستانی تھیں۔ آٹھ سال کی عمر میں یتیم ہوئے۔ کچھ عرصہ بعد یہ خاندان دہلی منتقل ہوگیا۔

امیرخسرو نے سلطنت دہلی کے آٹھ بادشاہوں کا زمانہ دیکھا۔ آپ نے برصغیر میں اسلامی سلطنت کے ابتدائی ادوار کی سیاسی، سماجی اور ثقافتی زندگی میں سرگرم حصہ لیا۔ محبوب الہی خواجہ نظام الدین اولیا کے بڑے چہیتے مرید تھے۔ خسرو کو بھی مرشد سے انتہائی عقیدت تھی۔ خسرو نے ہر صنف شعر، مثنوی، قصیدہ، غزل، اردو دوہے، پہیلیاں اور گیت وغیرہ میں طبع آزمائی کی۔ غزل میں پانچ دیوان یادگار چھوڑے۔ ہندوستانی موسیقی میں ترانہ، قول اور قلبانہ انہی کی ایجاد ہے۔ بعض ہندوستانی راگنیوں میں ہندوستانی پیوند لگائے۔ راگنی (ایمن کلیان) جو شام کے وقت گائی جاتی ہے انہی کی ایجاد ہے۔ کہتے یہ کہ ستار پر تیسرا تار آپ ہی نے چڑھایا۔ خواجہ نظام الدین اولیا کے مرید تھے اور انہیں کے قدموں میں دفن ہوئے۔

آپ کا تاریخ وصال 18 شوال المکرم 725ھ موافق 1325ء ہے۔

امیر خسرو شاعری سے ہی نہیں بلکہ موسیقی سے بھی کافی دلچسپی رکھتے تھے۔ ہندوستانی کلاسیکی موسیقی کی ایک اہم شخصیت بھی مانے جاتے ہیں۔ کلاسیکی موسیقی کے اہم ساز طبلہ اور ستار انہی کی ایجاد مانی جاتی ہے۔ فن موسیقی کے اجزا جیسے خیال اور ترانہ بھی انہیں کی ایجاد ہے۔ دنیا میں اردو کا پہلا شعر امیرخسرو ہی کی طرف منسوب ہے۔ اس سلسلے میں اردو کے ابتدائی موجدین میں ان کا نام شمار ہے۔

.....مزید پڑھئے

مصنف کی مزید کتابیں

مصنف کی دیگر کتابیں یہاں پڑھئے۔

مزید

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے