میری پہلی پرورش تقدیس کی آغوش میں
قدسیوں کے سر بھی کاملؔ میرے آگے خم رہے
یوں ہوئی روح کو محسوس محبت اس کی
جیسے آغوش میں دریا کے سمندر اترا
ہیں صدقے کسے آج پیار آ گیا
یہ کون آ گیا میرے آغوش میں
میں غش میں ہوں مجھے اتنا نہیں ہوش
تصور ہے ترا یا تو ہم آغوش
علویؔ کو ز بس تھا خوف غنا کہا یار نے با ہما لطف و عطا
کیوں ڈرتا ہے آ آغوش میں آ تو اور نہیں میں اور نہیں
کبھی آسیؔ سے ہم آغوش نہ دیکھا تجھ کو
اثر جذبۂ دل اہل محبت بھی نہیں
ہوش کی باتیں وہی کرتا ہے اکثر ہوش میں
خود بھی جو محبوب ہو محبوب کی آغوش میں
وہاں ہوں میں جہاں تمئیز حسن و عشق مشکل ہے
ہر اک جلوہ اب آغوش نظر میں جلوۂ دل ہے
رہ کے آغوش میں اے بحر کرم عاشق کو
قسمت سوختۂ سبزۂ ساحل دینا
دیجئے ان کو کنار آرزو پر اختیار
جب وہ ہوں آغوش میں بے دست و پا ہو جائیے
مجھ کو تنہا دیکھنے والے نہ سمجھیں راز عشق
میری تنہائی کے لمحے یار کے آغوش ہیں
نہ ہوگا ہمارا ہی آغوش خالی
کچھ اپنا بھی پہلو تہی پائیے گا
کہیں ناکام رہ جائے نہ ذوق جستجو اپنا
عدم سے بھی خیال یار ہم آغوش ہو جانا
آپ کی تصویر ہر دم دل سے ہم آغوش ہے
یعنی وہ بے ہوش ہوں قربان جس پر ہوش ہے
رات-دن انگڑائیاں وہ لیں میری آغوش میں
جن حسینوں کے لئے پیدا یہ انگڑائی ہوئی
aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere