مری آرزو کے چراغ پر کوئی تبصرہ بھی کرے تو کیا
کبھی جل اٹھا سر شام سے کبھی بجھ گیا سر شام سے
لگتے ہیں یہ مہر و ماہ و انجم
دہلی کے چراغ ہی کا پرتو
عاشق نہ ہو تو حسن کا گھر بے چراغ ہے
لیلیٰ کو قیس شمع کو پروانہ چاہیے
میں جلاتا رہا تیرے لیے لمحوں کے چراغ
تو گزرتا ہوا صدیوں کی سواری میں ملا
مرے آنسوؤں کے قطرے ہیں چراغ راہ منزل
انہیں روشنی ملی ہے تپش دل و جگر سے
میں اندھیری گور ہوں اور تو تجلی طور کی
روشنی دے جا چراغ روئے جانانہ مجھے
بیدمؔ تمہاری آنکھیں ہیں کیا عرش کا چراغ
روشن کیا ہے نقش کف پائے یار نے
کشش چراغ کی یہ بات کر گئی روشن
پتنگے خود نہیں آتے بلائے جاتے ہیں
مرے داغ دل وہ چراغ ہیں نہیں نسبتیں جنہیں شام سے
انہیں تو ہی آ کے بجھائے گا یہ جلے ہیں تیرے ہی نام سے
بجھ رہے ہیں چراغ اشکوں کے
کیسے تابندہ رات کی جائے
نہیں آتی کسی کو موت دنیائے محبت میں
چراغ زندگی کی لو یہاں مدھم نہیں ہوتی
نہیں لخت جگر یہ چشم میں پھرتے کہ مردم نے
چراغ اب کر کے روشن چھوڑے ہیں دو چار پانی میں
چاند سی پیشانی سندور کا ٹیکا نہیں
بام کعبہ پر چراغ اس نے جلا کر رکھ دیا
نہ لالہ زار بنانا مزار کو نہ سہی
چراغ کے آگے کبھی شام کو جلا دینا
اندھارے میں پڑا ہوں کثرت کے وہم سے
وحدانیت کا لطف سوں روشن چراغ بخش
میں وہ گل ہوں نہ فرصت دی خزاں نے جس کو ہنسنے کی
چراغ قبر بھی جل کر نہ اپنا گل فشاں ہوگا
چراغ گور نہ شمع مزار رکھتے ہیں
بس ایک ہم یہ دل داغ دار رکھتے ہیں
وہ کیا حیات ہے جو ترک بندگی نہ ہوئی
چراغ جلتا رہا اور روشنی نہ ہوئی
گئے پہلو سے تم کیا گھر میں ہنگامہ تھا محشر کا
چراغ صبح گاہی میں جمال شمع انور میں
صبح نہیں بے وجہ جلائے لالے نے گلشن میں چراغ
دیکھ رخ گلنار صنم نکلا ہے وہ لالہ پھولوں کا
بڑے خلوص سے مانگی تھی روشنی کی دعا
بڑھا کچھ اور اندھیرا چراغ جلنے سے
مرے نشیمن میں شان قدرت کے سارے اسباب ہیں مہیا
ہوا صفائی پہ ہے مقرر چراغ بجلی جلا رہی ہے
مہر خوباں خانہ افروز دل افسردہ ہے
شعلہ آب زندگانیٔ چراغ مردہ ہے
وہ ظلمتیں ہیں رہ زیست میں قدم بہ قدم
چراغ دل بھی جلائیں تو کچھ سجھائی نہ دے
آگے قدم بڑھائیں جنہیں سوجھتا نہیں
روشن چراغ راہ کئے جا رہا ہوں میں
اپنا بنا کے اے صنم تم نے جو آنکھ پھیر لی
ایسا بجھا چراغ دل پھر یہ کبھی جلا نہیں
جلا ہوں آتش فرقت سے میں اے شعلہ رو یاں تک
چراغ خانہ مجھ کو دیکھ کر ہر شام جلتا ہے
حاجت شمع کیا ہے تربت پر
ہم کہ دل سا چراغ رکھتے ہیں
جھونکے نسیم صبح کے آ آ کے ہجر میں
اک دن چراغ ہستیٔ عاشق بجھائیں گے
سانسوں کی اوٹ لے کے چلا ہوں چراغ دل
سینے میں جو نہیں وہ گھٹن راستے میں ہے
داغ سوزاں چھوڑ کر عاشق نے لی راہ عدم
پسرو تم کو چراغ رہ گزر درکار تھا
اندھیرے لاکھ چھا جائیں اجالا کم نہیں ہوتا
چراغ آرزو جل کر کبھی مدھم نہیں ہوتا
ہزار رنگ زمانہ بدلے ہزار دور نشاط آئے
جو بجھ چکا ہے ہوائے غم سے چراغ پھر وہ جلا نہیں ہے
aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere