Sufinama

چراغ پر اشعار

مری آرزو کے چراغ پر کوئی تبصرہ بھی کرے تو کیا

کبھی جل اٹھا سر شام سے کبھی بجھ گیا سر شام سے

عزیز وارثی دہلوی

لگتے ہیں یہ مہر‌‌ و ماہ و انجم

دہلی کے چراغ ہی کا پرتو

معین نظامی

عاشق نہ ہو تو حسن کا گھر بے چراغ ہے

لیلیٰ کو قیس شمع کو پروانہ چاہیے

بیدم شاہ وارثی

میں جلاتا رہا تیرے لیے لمحوں کے چراغ

تو گزرتا ہوا صدیوں کی سواری میں ملا

مظفر وارثی

مرے آنسوؤں کے قطرے ہیں چراغ راہ منزل

انہیں روشنی ملی ہے تپش دل و جگر سے

جوہرؔ وارثی

میں اندھیری گور ہوں اور تو تجلی طور کی

روشنی دے جا چراغ روئے جانانہ مجھے

مضطر خیرآبادی

بیدمؔ تمہاری آنکھیں ہیں کیا عرش کا چراغ

روشن کیا ہے نقش کف پائے یار نے

بیدم شاہ وارثی

کشش چراغ کی یہ بات کر گئی روشن

پتنگے خود نہیں آتے بلائے جاتے ہیں

پرنم الہ آبادی

مرے ماہ منور تیرے آگے

چراغ دیر کیا شمع حرم کیا

عزیز وارثی دہلوی

چاند سی پیشانی سندور کا ٹیکا نہیں

بام کعبہ پر چراغ اس نے جلا کر رکھ دیا

کوثر خیرآبادی

نہ لالہ زار بنانا مزار کو نہ سہی

چراغ کے آگے کبھی شام کو جلا دینا

ریاض خیرآبادی

فراق میں ہیں ہم انداز دل کا پائے ہوئے

یہ وہ چراغ ہے جلتا ہے بے جلائے ہوئے

عرش گیاوی

ہوا گل مری زندگی کا چراغ

نمایاں جو شام مصیبت ہوئی

عرش گیاوی

بڑے خلوص سے مانگی تھی روشنی کی دعا

بڑھا کچھ اور اندھیرا چراغ جلنے سے

مظفر وارثی

مرے نشیمن میں شان قدرت کے سارے اسباب ہیں مہیا

ہوا صفائی پہ ہے مقرر چراغ بجلی جلا رہی ہے

مضطر خیرآبادی

مہر خوباں خانہ افروز دل افسردہ ہے

شعلہ آب زندگانیٔ چراغ مردہ ہے

میر محمد بیدار

اندھارے میں پڑا ہوں کثرت کے وہم سے

وحدانیت کا لطف سوں روشن چراغ بخش

قادر بخش بیدلؔ

میں وہ گل ہوں نہ فرصت دی خزاں نے جس کو ہنسنے کی

چراغ قبر بھی جل کر نہ اپنا گل فشاں ہوگا

عرش گیاوی

چراغ گور نہ شمع مزار رکھتے ہیں

بس ایک ہم یہ دل داغ دار رکھتے ہیں

احسن اللہ خاں بیان

وہ کیا حیات ہے جو ترک بندگی نہ ہوئی

چراغ جلتا رہا اور روشنی نہ ہوئی

عزیز وارثی دہلوی

گئے پہلو سے تم کیا گھر میں ہنگامہ تھا محشر کا

چراغ صبح گاہی میں جمال شمع انور میں

راقم دہلوی

صبح نہیں بے وجہ جلائے لالے نے گلشن میں چراغ

دیکھ رخ گلنار صنم نکلا ہے وہ لالہ پھولوں کا

شاہ نصیر

مرے داغ دل وہ چراغ ہیں نہیں نسبتیں جنہیں شام سے

انہیں تو ہی آ کے بجھائے گا یہ جلے ہیں تیرے ہی نام سے

فنا بلند شہری

بجھ رہے ہیں چراغ اشکوں کے

کیسے تابندہ رات کی جائے

صادق دہلوی

نہیں آتی کسی کو موت دنیائے محبت میں

چراغ زندگی کی لو یہاں مدھم نہیں ہوتی

صادق دہلوی

نہیں لخت جگر یہ چشم میں پھرتے کہ مردم نے

چراغ اب کر کے روشن چھوڑے ہیں دو چار پانی میں

شاہ نصیر

وہ ظلمتیں ہیں رہ زیست میں قدم بہ قدم

چراغ دل بھی جلائیں تو کچھ سجھائی نہ دے

اخترؔ وارثی

آگے قدم بڑھائیں جنہیں سوجھتا نہیں

روشن چراغ راہ کئے جا رہا ہوں میں

جگر مرادآبادی

اپنا بنا کے اے صنم تم نے جو آنکھ پھیر لی

ایسا بجھا چراغ دل پھر یہ کبھی جلا نہیں

فنا بلند شہری

جلا ہوں آتش فرقت سے میں اے شعلہ رو یاں تک

چراغ خانہ مجھ کو دیکھ کر ہر شام جلتا ہے

عبدالرحمٰن احسان دہلوی

حاجت شمع کیا ہے تربت پر

ہم کہ دل سا چراغ رکھتے ہیں

احسن اللہ خاں بیان

جھونکے نسیم صبح کے آ آ کے ہجر میں

اک دن چراغ ہستیٔ عاشق بجھائیں گے

بیدم شاہ وارثی

سانسوں کی اوٹ لے کے چلا ہوں چراغ دل

سینے میں جو نہیں وہ گھٹن راستے میں ہے

مظفر وارثی

داغ سوزاں چھوڑ کر عاشق نے لی راہ عدم

پسرو تم کو چراغ رہ گزر درکار تھا

آسی غازیپوری

اندھیرے لاکھ چھا جائیں اجالا کم نہیں ہوتا

چراغ آرزو جل کر کبھی مدھم نہیں ہوتا

فنا بلند شہری

ہزار رنگ زمانہ بدلے ہزار دور نشاط آئے

جو بجھ چکا ہے ہوائے غم سے چراغ پھر وہ جلا نہیں ہے

افقر موہانی

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

متعلقہ موضوعات

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے