غم پر اشعار
غم غم عربی زبان سے
ماخوذ اسم ہے۔ اردو مںی اپنے اصل معنی اور بدلی ہوئی ساخت کے ساتھ بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔اس کا معنی رنج، اندوہ، دکھ، ملال، الم اورافسوس ہوتا ہے۔ تحریراً سب سے پہلے ١٥٠٣ء کو "نوسرہار" میں اس کا استعمال ہوا ہے۔تصوف میں خدا کی تلاش میں اٹھائی جانے والی تکلیف کو غم کہا جاتا ہے۔
جو مٹا ہے تیرے جمال پر وہ ہر ایک غم سے گزر گیا
ہوئیں جس پہ تیری نوازشیں وہ بہار بن کے سنور گیا
دیکھیے اب کے غم سے جی میرا
نہ بچے گا بچے گا کیا ہوگا
محسوس یہ ہوا مجھے احساس غم کے ساتھ
میں اس کے دم کے ساتھ ہوں، وہ میرے دم کے ساتھ
ملا ہے جو مقدر میں رقم تھا
زہے قسمت مرے حصے میں غم تھا
شب غم کس آرام سے سو گئے ہم
فسانہ تری یاد کا کہتے کہتے
میں وہ صاف ہی نہ کہہ دوں جو ہے فرق مجھ میں تجھ میں
ترا درد درد تنہا مرا غم غم زمانہ
رکھتے ہیں دشمنی بھی جتاتے ہیں پیار بھی
ہیں کیسے غم گسار مرے غم گسار بھی
نہ کر ناصحا ضبط غم کی نصیحت
کہ ہے صبر دشوار جان حزیں پر
دنیا کے ہر اک غم سے بہتر ہے غم جاناں
سو شمع بجھا کر ہم اک شمع جلا لیں گے
رکھا نہ اب کہیں کا دل بے قرار نے
برباد کر دیا غم بے اختیار نے
کچھ رہا بھی ہے بیمار غم میں
اب دوا ہو تو کس کی دوا ہو
بس وہی پاتا ہے عیش زندگی
جس کو غم میں مبتلا کرتا ہے عشق
وہ آنکھ میرے لیے نم ہے کیا کیا جائے
اسے بھی آج مرا غم ہے کیا کیا جائے
بصد نا مرادی مراد اپنی کاملؔ
کسی کا غم معتبر اللہ اللہ
مٹ جائے اپنی ہستی موہوم غم ہے کیا
ہو دل کو ترا غم کوئی ہو ہو نہ ہو نہ ہو
میں تلخی حیات سے گھبرا کے پی گیا
غم کی سیاہ رات سے گھبرا کے پی گیا
آخر غم حیات کے ماتم سے فائدہ
غم زندگی کے ساتھ خوشی زندگی کے ساتھ
دل گیا رونق حیات گئی
غم گیا ساری کائنات گئی
نہ پوچھو پتہ اکبرؔ غم زدہ کا
کہیں ہوگا تھامے جگر دیکھ لینا
آج انکے دامن پر اشک میرے ڈھلتے ہیں
غم کے تیز رو دھارے راستے بدلتے ہیں
غم جاناں کو جان جاں بنا لے دیکھ دیوانے
غم جاناں سے بڑھ کر اور کوئی غم نہیں ہوتا
کبھی ورطۂ غم میں دل کو ڈبو کر کبھی خون پی کر کبھی خون رو کر
بہت کچھ ابھی اپنی روداد غم کو اسی طرح رنگیں بنانا پڑےگا
تموج بحر غم کا دیکھتے ہو
حباب دل ہے دریا دل ہمارا
کون رہتا ہے تیرے غم کے سوا
اس دل خانماں خراب کے بیچ
عمر گزرے اسی کشمکش میں مری
غم ستاتا رہے خوں رلاتا رہے
غم جاناں غم ایام کے سانچے میں ڈھلتا ہے
کہ اک غم دوسرے کا چارہ گر ہے ہم نہ کہتے تھے
عشق میں تیرے کوہ غم سر پہ لیا جو ہو سو ہو
عیش و نشاط زندگی چھوڑ دیا جو ہو سو ہو
جو دل ہو جلوہ گاہ ناز اس میں غم نہیں ہوتا
جہاں سرکار ہوتے ہیں وہاں ماتم نہیں ہوتا
فرقت میں ترے غم و الم نے
تنہا مجھے پا کے مار ڈالا
کیا غم جو ٹوٹ جایں جگر، جاں، کلیجہ، دل
پر تیری چاہ کی نہ تمنا شکست ہو
کیا ان آہوں سے شب غم مختصر ہو جائے گی
یہ سہ سحر ہونے کی باتیں ہیں سحر ہو جائے گی
کئے مجھ پہ احساں غم یار نے
ہمیشہ کو نیچی نظر ہو گئی
تیرے غم نے یہ دن دکھایا مجھے
کہ مجھ سے ہی آخر چھڑایا مجھے
غم سے نازک ضبط غم کی بات ہے
یہ بھی دریا ہے مگر ٹھہرا ہوا
نہیں ہوتی وفا کی منزلیں آساں کبھی اس پر
محبت میں جو ہستی آشنائے غم نہیں ہوتی
صرف غم ہم نے نوجوانی کی
واہ کیا خوب زندگانی کی
اور کچھ غم نہیں غم یہ ہے
آپ مل کر جدا ہو گئے
سیمابؔ کی سرمستی اور غم کدۂ ہستی
دیوانہ ہے دیوانہ دیوانے سے کیا کہئے
سہتے سہتے غم محبت کے یہ حالت ہو گئی
ہنس کے بولا جو کوئی اس سے محبت ہو گئی
نہیں چلتی کوئی تدبیر غم میں
یہی کیا کم ہے جو آنسو رواں ہے
جس روز کہ پہنچے ہے نئی کوئی مصیبت
اس روز تیرا خوگر غم عید کرے ہے
کیا غم ہجر کیا سرور وصال
گزراں ہے دوام کچھ بھی ہے
اٹھے کیا زانوئے غم سے سر اپنا
بہت گزری رہی ہیہات تھوڑی
جو غم میں مسرت کی گھلنے کو ہوئے پیدا
بد بخت وہ کیا جانیں خود غم کی مسرت کو
موت سے آپ کی الفت نے بچا رکھا ہے
ورنہ بیمار غم ہجر میں کیا رکھا ہے
شاید کہ یہی آنسو کام آئیں محبت میں
ہم اپنی متاع غم برباد نہیں کرتے
مٹے افکار گوناگوں کے جھگڑے
ترے غم کو نہ دے کیونکر دعا دل
aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere