گل پر اشعار
گل اصلاً فارسی زبان
کا لفظ ہے اور بطور اسم مستعمل ہے۔اردو مں فارسی سے لیا گیا ہے ۔ ١٦١١ء کے آس پاس"کلیات قلی قطب شاہ" مںا اس کا استعمال ملتا ہے۔اس کا لغوی معنی پھول ہو تا ہے۔کنائے کے طورپر اس کا استعمال محبوب، معشوق اوردلبرکے لئے بھی ہوتا ہے۔ صوفیا گل سے مراد نتیجہ عمل، لذت معرفت اور حس مجازی لیتے ہیں۔
رنگ گل پھیکا ہے جس کے سامنے
اتنا رنگیں یار کا رخسار ہے
باغ جہاں کے گل ہیں یا خار ہیں تو ہم ہیں
گر یار ہیں تو ہم ہیں اغیار ہیں تو ہم ہیں
صورت گل میں کھلکھلا کے ہنسا
شکل بلبل میں چہچہا دیکھا
جان دی بلبلوں نے جب گل پر
تب وہ گلزار میں نظر آیا
میں وہ گل ہوں نہ فرصت دی خزاں نے جس کو ہنسنے کی
چراغ قبر بھی جل کر نہ اپنا گل فشاں ہوگا
شیداۓ روگل نہ ہیں شیداۓ قدسرو
صیاد کے شکار ہیں اس بوستاں میں ہم
جان جاتی ہے چلی دیکھ کے یہ موسم گل
ہجر و فرقت کا مری جان یہ گلفام نہیں
وہ فصل گل میں دل کو جلا کر چلے گئے
اس مرتبہ تو آگ لگا دی بہار نے
سنبھل جاؤ چمن والو خطر ہے ہم نہ کہتے تھے
جمال گل کے پردے میں شرر ہے ہم نہ کہتے تھے
کیا سیر سب ہم نے گلزار دنیا
گل دوستی میں عجب رنگ و بو ہے
بلبل کو مبارک ہو ہوائے گل و گلشن
پروانے کو سوز دل پروانہ مبارک
کچھ ایسا درد شور قلب بلبل سے نکل آیا
کہ وہ خود رنگ بن کر چہرۂ گل سے نکل آیا
نے گل کو ہے ثبات نہ ہم کو ہے اعتبار
کس بات پر چمن ہوس رنگ و بو کریں
گل کا کیا جو چاک گریباں بہار نے
دست جنوں لگے مرے کپڑے اتارنے
گل رویوں کے خیال نے گلشن بنا دیا
سینہ کبھی مدینہ کبھی کربلا ہوا
فصل گل آئی یا اجل آئی کیوں در زنداں کھلتا ہے
یا کوئی وحشی اور آ پہنچا یا کوئی قیدی چھوٹ گیا
آسیؔ گریاں ملا محبوب سے
گل سے شبنم جس طرح رو کر ملے
منتظر ہے آپکے جلوہ کی نرگس باغ میں
گل گریباں چاک شبنم اک طرف نم دیدہ ہے
ہمیں تو باغ تجھ بن خانۂ ماتم نظر آیا
ادھر گل پھاڑتے تھے جیب روتی تھی ادھر شبنم
کسی کا ساتھ سونا یاد آتا ہے تو روتا ہوں
مرے اشکوں کی شدت سے سدا گل تکیہ گلتا ہے
کوئی تبصرہ بھی کرے تو کیا ترے پرخلوص شعار پر
جو نصیب گل ہے ترا کرم تو نگاہ لطف ہے خار پر
شاخ گل ہلتی نہیں یہ بلبلوں کو باغ میں
ہاتھ اپنے کے اشارے سے بلاتی ہے بہار
ہر گل ہے چاک دامن ہر غنچہ دل گرفتہ
اے باغبان قدرت فصل بہار کیا ہے
صبا کی طرح رہا میں بھی کو بہ کو پھرتا
ہمارے دل سے بھی اس گل کی جستجو نہ گئی
ترا وجود ہے جان بہار گلشن چشت
تجھی سے نکہت ہر گل ہے یا غریب نواز
سارے عالم میں تیری خوشبو ہے
اے میرے رشک گل کہاں تو ہے
گل ہی تنہا نہ خجل ہے رخ رنگیں سے ترے
نرگس آنکھوں کے ترے سامنے شرماتی ہے
تیرے داغوں کی دولت اے گل رو
ہم بھی سینے میں باغ رکھتے ہیں
ارے دل مثل بلبل چپ ہمیشہ نالہ زن ہے توں
کہیں گل پیرہن گل رو کی پایا کچھ خبر ہے رے
مثل گل باہر گیا گلشن سے جب وہ گلعذار
اشک خونی سے میرا تن تر بہ تر ہونے لگا
سرسبز گل کی رکھے خدا ہر روش بہار
اے باغباں نصیب ہو تجھ کو بلائے گل
وہ گل اندام جو آیا تو خجالت سے تمام
زرد ہو جاؤ گے اے لالہ رخاں سنتے ہو
دیکھے جو یک بیک گل رو تمہاری بے حجابی ہم
مثال بلبل شیدا کئے اپنی خرابی ہم
بزم خلوت میں تک رہی تھی اسے
شمع’ آخر کو گل کئے ہی بنی
مرتا ہوں میرزائی گل دیکھ ہر سحر
سورج کے ہاتھ چونری تو پنکھا صبا کے ہاتھ
عشق میں تیرے گل کھا کر جان اپنی دی ہے نصیرؔ نے آہ
اس کے سر مرقد پر گل رولا کوئی دونا پھولوں کا
یاد میں اس قد و رخسار کے اے غم زدگاں
جا کے ٹک باغ میں سیر گل و شمشاد کرو
کس طرح حال دل کہوں اس گل سے باغ میں
پھرتی ہے اس کے ساتھ تو ہر دم صبا لگی
لالہ و گل سے تجھ کو کیا نسبت
نا مکمل سے استعارے ہیں
خدا حافظ ہے اس گل کی کمر کا
غضب جھونکے چلے باد سحر کے
ہنسی عبرت بہت جب رنگ گل کی بے ثباتی نے
چمن میں عندلیب سادہ دل کو شادماں پایا
نالے بلبل نے گو ہزار کیے
ایک بھی گل نے پر سنا ہی نہیں
گل مرقع ہیں ترے چاک گریبانوں کے
شکل معشوق کی انداز ہیں دیوانوں کے
کر گریباں چاک اپنا گل نمط بہیں پر گرا
درد دل بلبل سوں سن کر او گل خنداں مرا
نہ ہوں پروانۂ ہر شمع بیدارؔ
فدائے سرو گل اندام ہوں میں
ناز گل کا شہید ہے جو فناؔ
قبر پر گل رخوں کا میلہ ہے
ابھی تو لگ نہ چلنا تھا اثرؔ اس گل بدن کے ساتھ
کوئی دن دیکھنا تھا زخم دل بے طرح آلا تھا
aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere