Sufinama

گل پر اشعار

گل اصلاً فارسی زبان

کا لفظ ہے اور بطور اسم مستعمل ہے۔اردو مں فارسی سے لیا گیا ہے ۔ ١٦١١ء کے آس پاس"کلیات قلی قطب شاہ" مںا اس کا استعمال ملتا ہے۔اس کا لغوی معنی پھول ہو تا ہے۔کنائے کے طورپر اس کا استعمال محبوب، معشوق اوردلبرکے لئے بھی ہوتا ہے۔ صوفیا گل سے مراد نتیجہ عمل، لذت معرفت اور حس مجازی لیتے ہیں۔

باغ جہاں کے گل ہیں یا خار ہیں تو ہم ہیں

گر یار ہیں تو ہم ہیں اغیار ہیں تو ہم ہیں

خواجہ میر درد

رنگ گل پھیکا ہے جس کے سامنے

اتنا رنگیں یار کا رخسار ہے

شاہ اکبر داناپوری

جان دی بلبلوں نے جب گل پر

تب وہ گلزار میں نظر آیا

امداد علی علوی

صورت گل میں کھلکھلا کے ہنسا

شکل بلبل میں چہچہا دیکھا

شاہ نیاز احمد بریلوی

میں وہ گل ہوں نہ فرصت دی خزاں نے جس کو ہنسنے کی

چراغ قبر بھی جل کر نہ اپنا گل فشاں ہوگا

عرش گیاوی

سنبھل جاؤ چمن والو خطر ہے ہم نہ کہتے تھے

جمال گل کے پردے میں شرر ہے ہم نہ کہتے تھے

واصف علی واصف

گل رویوں کے خیال نے گلشن بنا دیا

سینہ کبھی مدینہ کبھی کربلا ہوا

آسی غازیپوری

آسیؔ گریاں ملا محبوب سے

گل سے شبنم جس طرح رو کر ملے

آسی غازیپوری

شیداۓ روگل نہ ہیں شیداۓ قدسرو

صیاد کے شکار ہیں اس بوستاں میں ہم

خواجہ حیدر علی آتشؔ

جان جاتی ہے چلی دیکھ کے یہ موسم گل

ہجر و فرقت کا مری جان یہ گلفام نہیں

شاہ نیاز احمد بریلوی

کیا سیر سب ہم نے گلزار دنیا

گل دوستی میں عجب رنگ و بو ہے

خواجہ میر درد

کچھ ایسا درد شور قلب بلبل سے نکل آیا

کہ وہ خود رنگ بن کر چہرۂ گل سے نکل آیا

مضطر خیرآبادی

نے گل کو ہے ثبات نہ ہم کو ہے اعتبار

کس بات پر چمن ہوس رنگ و بو کریں

خواجہ میر درد

گل کا کیا جو چاک‌ گریباں بہار نے

دست جنوں لگے مرے کپڑے اتارنے

بیدم شاہ وارثی

بلبل کو مبارک ہو ہوائے گل و گلشن

پروانے کو سوز دل پروانہ مبارک

بیدم شاہ وارثی

منتظر ہے آپکے جلوہ کی نرگس باغ میں

گل گریباں چاک شبنم اک طرف نم دیدہ ہے

بیدم شاہ وارثی

ہمیں تو باغ تجھ بن خانۂ ماتم نظر آیا

ادھر گل پھاڑتے تھے جیب روتی تھی ادھر شبنم

خواجہ میر درد

وہ فصل گل میں دل کو جلا کر چلے گئے

اس مرتبہ تو آگ لگا دی بہار نے

کامل شطاری

کوئی تبصرہ بھی کرے تو کیا ترے پرخلوص شعار پر

جو نصیب گل ہے ترا کرم تو نگاہ لطف ہے خار پر

عزیز وارثی دہلوی

شاخ گل ہلتی نہیں یہ بلبلوں کو باغ میں

ہاتھ اپنے کے اشارے سے بلاتی ہے بہار

مرزا مظہر جان جاناں

ہر گل ہے چاک دامن ہر غنچہ دل گرفتہ

اے باغبان قدرت فصل بہار کیا ہے

حسن امام وارثی

کسی کا ساتھ سونا یاد آتا ہے تو روتا ہوں

مرے اشکوں کی شدت سے سدا گل تکیہ گلتا ہے

عبدالرحمٰن احسان دہلوی

فصل گل آئی یا اجل آئی کیوں در زنداں کھلتا ہے

یا کوئی وحشی اور آ پہنچا یا کوئی قیدی چھوٹ گیا

فانی بدایونی

رخ پہ ہر صورت سے رکھنا گل رخاں خط کا ہے کفر

دیکھو قرآں پر نہ رکھیو بوستاں بہر خدا

شاہ نصیر

شراب ناب تو کیا آگ پانی بن کے برسے گی

اگر ابر بہار اس آتش گل کا دھواں ہوگا

ریاض خیرآبادی

صبا کی طرح رہا میں بھی کو بہ کو پھرتا

ہمارے دل سے بھی اس گل کی جستجو نہ گئی

شاہ امیرالدین فردوسی

بزم گل میں وہ گلعذار نہیں

فصل گل ہے مگر بہار نہیں

فضیحت شاہ وارثی

ابھارے سے ابھرے نہ گل تیرے آگے

چہکنے کو چہکے عنا دل ہزاروں

ریاض خیرآبادی

اے گل بدن میرا توں چمن سے نہ جا نہ جا

روحی فداک یعنی وطن سے نہ جا نہ جا

قادر بخش بیدلؔ

آہ سوزاں و اشک گل گوں سے

کار برق و سحاب کرتا ہوں

میر محمد بیدار

مرے گل کو لا یہ اپنے پھول لے جا عندلیب

ایسے کانٹوں سے نہیں پھانسیں نکلوانی مجھے

مضطر خیرآبادی

اس چمن کی سیر میں اے گلعذار

عشقؔ کی آنکھوں میں طوفاں یا نصیب

خواجہ رکن الدین عشقؔ

جوں گل تو ہنسے ہے کھل کھلا کر

شبنم کی طرح مجھے رلا کر

خواجہ میر اثر

ان کو گل کا مقدر ملا

مجھ کو شبنم کی قسمت ملی

فنا نظامی کانپوری

آنے دو اس گل بدن کو مجھ میں پورے حسن سے

عندلیب دل ہوں عالم مجھ پر نالاں تو سہی

مردان صفی

شیشے میں حسیں بادۂ گلفام حسیں ہے

مے خانۂ اسلام کا ہر جام حسیں ہے

حیات وارثی

سمجھ کر سانپ اس کو وہ گلے سے میرے آ لپٹا

جو شب بستر پہ دیکھا گل بدن نے ہار کا سایا

شاہ نصیر

صاف یا درد بادۂ گلگوں

ساقیٔ لالہ فام کچھ بھی ہے

میر محمد بیدار

تو وہ گل رعنا ہے جو آ جائے چمن میں

جھوما کریں اک وجد کے عالم میں شجر بھی

عرش گیاوی

بنے پنکھڑی نقش پا کب لحد پر

تجھے اے صبا گل کترنا نہ آیا

ریاض خیرآبادی

غیر کے گھر میں بھی راقمؔ آج تم ہوتے چلو

ایک چھچھوندر چھوڑ کر کچھ گل کھلاتے جائیے

راقم دہلوی

لوٹے گا سب بہار تری شحنۂ خزاں

بلبل پر کر لے تو زر گل کو نثار شاخ

خواجہ رکن الدین عشقؔ

دیکھ اے چمن حسن تجھے باغ میں خنداں

شبنم نہیں یہ گل پہ خجالت سے عرق ہے

میر محمد بیدار

کم نہیں گلشن میں شبنم گل بدن گل پیرہن

غسل کر مل مل کے گر آب رواں ملتا نہیں

دیکھتے ہیں سرو قدوں کو جو ہم

اس میں گل گشت صنوبر اور ہے

مردان صفی

گل گیر کا خطر تو پتنگوں کی ہے خلش

آفت میں جان شام سے شمع سحر کی ہے

عرش گیاوی

عنادل بھی کلیاں بھی گل بھی صبا بھی

یہ صحبت ہے ہنسنے ہنسانے کے قابل

ریاض خیرآبادی

کوئی اس کا ہو گریباں گیر یہ کہتا نہیں

باغباں دامان گل کو گل پہ کیوں کھینچے ہیں آپ

شاہ نصیر

بہار لالہ وگل لطف سبزہ وسنبل

مزہ تھا ہم جو گلستان میں آج کل جاتے

اسیر لکھنوی

پھولے نہیں سماتے ہو جامہ میں مثل گل

پہنچا ہے تم کو آج کسو کا پیام خاص

خواجہ رکن الدین عشقؔ

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

متعلقہ موضوعات

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے