Font by Mehr Nastaliq Web

خودی پر اشعار

نیستی ہستی ہے یارو اور ہستی کچھ نہیں

بے خودی مستی ہے یارو اور مستی کچھ نہیں

شاہ نیاز احمد بریلوی

بے خودی میں بھی ترا نام لئے جاتے ہیں

روگ یہ کیسا لگا ہے ترے مستانے کو

فنا بلند شہری

جب تلک میری خودی باقی رہی سب کچھ تھا

رہ گیا پھر تو فقط نام خدا میرے بعد

امداد علی علوی

کسی کی مست نگاہی نے ہاتھ تھام لیا

شریک حال جہاں میری بے خودی نہ ہوئی

جگر مرادآبادی

کبھی دیر و کعبہ بتا دیا کبھی لا مکاں کا پتا دیا

جو خودی کو ہم نے مٹا دیا تو وہ اپنے آپ میں پا گئے

اکبر وارثی میرٹھی

وہ عروج ماہ وہ چاندنی وہ خموش رات وہ بے خودی

وہ تصورات کی سر خوشی ترے ساتھ راز و نیاز میں

سیماب اکبرآبادی

نشیلی نگاہوں کے مارے ہوؤں کو بس اک بے خودی میں گزارے ہوؤں کو

تیری مست آنکھوں کے قربان ساقی انہیں ساغروں سے پلانا پڑےگا

کامل شطاری

جنوں ظاہر ہوا رخ پر خودی پر بے خودی چھائی

بہ قید ہوش میں جب بھی قریب آستاں پہنچا

فنا بلند شہری

زندگی کو بیچ ڈالا بے خودی کے جام پر

ایک ہی ساغر سے دل کی تشنگی جاتی رہی

بیخود سہر وردی

گزر جا منزل احساس کی حد سے بھی اے افقرؔ

کمال بے خودی ہے بے نیاز ہوش ہو جانا

افقر موہانی

آنا ہے جو بزم جاناں میں پندار خودی کو توڑ کے آ

اے ہوش و خرد کے دیوانے یاں ہوش و خرد کا کام نہیں

جگر مرادآبادی

مصلحت یہ ہے خودی کی غفلتیں طاری رہیں

جب خودی مٹ جائے گی بندہ خدا ہو جائے گا

سیماب اکبرآبادی

خودی خوداعتمادی میں بدل جائے تو بندوں کو

خدا سے سرکشی کرنے کی نوبت آ ہی جاتی ہے

فقیر قادری

تو نے اپنا جلوہ دکھانے کو جو نقاب منہ سے اٹھا دیا

وہیں حیرت بے خودی نے مجھے آئینہ سا دکھا دیا

شاہ نیاز احمد بریلوی

تو اے محبت گواہ رہنا کہ تیرے مضطرؔ کو وقت آخر

خیال ترک خودی رہا ہے تو دل میں یاد خدا رہی ہے

مضطر خیرآبادی

جوئی اول سوئی آخر جوئی ظاہر سوئی باطن

خودی کے ترک میں جلدی سے مخفی سب عیاں ہوگا

قادر بخش بیدلؔ

کہ خرد کی فتنہ گری وہی لٹے ہوش چھا گئی بے خودی

وہ نگاہ مست جہاں اٹھی مرا جام زندگی بھر گیا

فنا بلند شہری

اس کے ہوتے خودی سے پاک ہوں میں

خوب ہے بے خودی نہیں جاتی

بیدم شاہ وارثی

نہیں بندہ حقیقت میں سمجھ اسرار معنی کا

خودی کا وہم برہم زن پچھے بے خود خدائی کر

قادر بخش بیدلؔ

سر جب سے جھکایا ہے در یار پہ میں نے

محراب خودی جلوہ گہہ شمع حرم ہے

فنا بلند شہری

جب خودی احدیت نے دور کیا

نور وحدت نے تب ظہور کیا

عطا حسین فانی

تیرے نین پر خمار کوں سرمست بادہ ناز

یا بے خودی کا جام یا سحر بلا کہوں

قادر بخش بیدلؔ

کیا کہوں کیا لا مکاں میں عمر مضطرؔ کاٹ دی

بے خودی نے جس جگہ رکھا وہاں رہنا پڑا

مضطر خیرآبادی

وصل عین دوری ہے بے خودی ضروری ہے

کچھ بھی کہہ نہیں سکتا ماجرا جدائی کا

عزیز صفی پوری

خرد ہے مجبور عقل حیراں پتہ کہیں ہوش کا نہیں ہے

ابھی سے عالم ہے بے خودی کا ابھی تو پردہ اٹھا نہیں ہے

افقر موہانی

جہان بیخودی میں مستیٔ وحدت جو لے جائے

فرشتے لیں قدم میرے وہ ہوں میں رند مستانہ

ابراہیم عاجزؔ

قدم قدم پہ رہی ایک یاد دامن گیر

تمہاری بزم میں یہ مجھ کو بے خودی نہ ہوئی

عزیز وارثی دہلوی

تمہیں پر سے بہزادؔ نے بے خودی میں

کیا دل تصدق جوانی لٹا دی

بہزاد لکھنوی

شۂ بے خودی نے عطا کیا مجھے اب لباس برہنگی

نہ خرد کی بخیہ گری رہی نہ جنوں کی پردا دری رہی

سراج اورنگ آبای

نہ وہ ہوش ہے نہ وہ بے خودی نہ خرد رہی نہ جنوں رہا

یہ تری نظر کی ہیں شوخیاں یہ کمال ہے ترے ناز میں

قیصرؔ شاہ وارثی

سیمابؔ کوئی مرتبہ منصور کا نہ تھا

لفظ خودی کی شرح نہ مشہور کر دیا

سیماب اکبرآبادی

کہہ دیا فرعون نے بھی میں خدا کر کے خودی

ہو کے بے خود جب کہے انکار کی حاجت نہیں

کشن سنگھ عارفؔ

مرداںؔ جو کوئی ڈوبے دریائے عشق میں وہ

چھوٹے خودی سے اپنے حب وطن سے نکلے

مردان صفی

نگاہ یار مری سمت پھر اٹھی ہوگی

سنبھل سکوں گا نہ میں ایسی یہ بے خودی ہوگی

فنا بلند شہری

دیکھ کے بے خودی مری آج وہ مسکرا دیا

عشق جنوں مزاج نے حسن کو گدگدا دیا

ذکی وارثی

یہ نرم و ناتواں موجیں خودی کا راز کیا جانیں

قدم لیتے ہیں طوفاں عظمت ساحل سمجھتے ہیں

جگر مرادآبادی

مے خانہ میں خودی کو نہیں دخل شیخ جی

بے خودی ہوا ہے جن نے پیا ہے وہ جام خاص

خواجہ رکن الدین عشقؔ

یہ کس نے نگاہوں سے ساغر پلائے خودی پر میری بے خودی بن کے چھائے

خبردار اے دل مقام ادب ہے، کہیں بادانوشی پے دھبا نا آئے

سعید شہیدی

مشکل ہے تا کہ ہستی ہے جاوے خودی کا شرک

تار نفس نہیں ہے یہ زنار ساتھ ہے

خواجہ میر اثر

جسے کہتے ہیں موت اک بے خودی کی نیند ہے شائقؔ

پریشانی ہے جس کا نام وہ ہے زندگی اپنی

پنڈت شائق وارثی

کر دیا ہے بے خودی نے آج اس قابل مجھے

اپنے پہلو میں لیے لیتی ہے خود منزل مجھے

پنڈت شائق وارثی

دوئی جا کے رنگ صفا رہ گیا

خودی مٹتے مٹتے خدا رہ گیا

مضطر خیرآبادی

کہاں شمسؔ بندا کہاں تو خدایا

خدا و خودی ہم بھلائے ہوئے ہیں

شمس صابری

کیوں یہ خدا کے ڈھونڈنے والے ہیں نامراد

گزرا میں جب حدود خودی سے خدا ملا

سیماب اکبرآبادی

ظفرؔ اس سے چھٹ کے جو جست کی تو یہ جانا ہم نے کہ واقعی

فقط ایک قید خودی کی تھی نہ قفس تھا کوئی نہ جال تھا

بہادر شاہ ظفر

بے خودی کی یہی تکمیل ہے شاید اے دوست

تو جو آتا ہے تو میں ہوش میں آ جاتا ہوں

قیصرؔ شاہ وارثی

وفور بے خودیٔ بزم مے نہ پوچھو رات

کوئی بجز نگۂ یار ہوشیار نہ تھا

آسی غازیپوری

عموما خانۂ دل میں محبت آ ہی جاتی ہے

خودی خوداعتمادی میں بدل جائے تو بندوں کو

فقیر قادری

ہم تو اپنی بے خودیٔ شوق میں سرشار تھے

آپ سے کس نے کہا تھا خود نما ہو جائیے

سیماب اکبرآبادی

اب نہ اپنا ہوش ہے مجھ کو نہ کچھ اس کا خیال

بے خودی طاری ہے جب سے ہو گئی رفتار اور

شمس صابری

متعلقہ موضوعات

بولیے