نیستی ہستی ہے یارو اور ہستی کچھ نہیں
بے خودی مستی ہے یارو اور مستی کچھ نہیں
جب تلک میری خودی باقی رہی سب کچھ تھا
رہ گیا پھر تو فقط نام خدا میرے بعد
وہ عروج ماہ وہ چاندنی وہ خموش رات وہ بے خودی
وہ تصورات کی سر خوشی ترے ساتھ راز و نیاز میں
کبھی دیر و کعبہ بتا دیا کبھی لا مکاں کا پتا دیا
جو خودی کو ہم نے مٹا دیا تو وہ اپنے آپ میں پا گئے
زندگی کو بیچ ڈالا بے خودی کے جام پر
ایک ہی ساغر سے دل کی تشنگی جاتی رہی
مصلحت یہ ہے خودی کی غفلتیں طاری رہیں
جب خودی مٹ جائے گی بندہ خدا ہو جائے گا
بے خودی میں بھی ترا نام لئے جاتے ہیں
روگ یہ کیسا لگا ہے ترے مستانے کو
جب خودی احدیت نے دور کیا
نور وحدت نے تب ظہور کیا
نشیلی نگاہوں کے مارے ہوؤں کو بس اک بے خودی میں گزارے ہوؤں کو
تیری مست آنکھوں کے قربان ساقی انہیں ساغروں سے پلانا پڑےگا
جنوں ظاہر ہوا رخ پر خودی پر بے خودی چھائی
بہ قید ہوش میں جب بھی قریب آستاں پہنچا
خرد ہے مجبور عقل حیراں پتہ کہیں ہوش کا نہیں ہے
ابھی سے عالم ہے بے خودی کا ابھی تو پردہ اٹھا نہیں ہے
گزر جا منزل احساس کی حد سے بھی اے افقرؔ
کمال بے خودی ہے بے نیاز ہوش ہو جانا
کسی کی مست نگاہی نے ہاتھ تھام لیا
شریک حال جہاں میری بے خودی نہ ہوئی
تیرے نین پر خمار کوں سرمست بادہ ناز
یا بے خودی کا جام یا سحر بلا کہوں
خودی خوداعتمادی میں بدل جائے تو بندوں کو
خدا سے سرکشی کرنے کی نوبت آ ہی جاتی ہے
تو نے اپنا جلوہ دکھانے کو جو نقاب منہ سے اٹھا دیا
وہیں حیرت بے خودی نے مجھے آئینہ سا دکھا دیا
نہیں بندہ حقیقت میں سمجھ اسرار معنی کا
خودی کا وہم برہم زن پچھے بے خود خدائی کر
آنا ہے جو بزم جاناں میں پندار خودی کو توڑ کے آ
اے ہوش و خرد کے دیوانے یاں ہوش و خرد کا کام نہیں
ظفرؔ اس سے چھٹ کے جو جست کی تو یہ جانا ہم نے کہ واقعی
فقط ایک قید خودی کی تھی نہ قفس تھا کوئی نہ جال تھا
جوئی اول سوئی آخر جوئی ظاہر سوئی باطن
خودی کے ترک میں جلدی سے مخفی سب عیاں ہوگا
کہ خرد کی فتنہ گری وہی لٹے ہوش چھا گئی بے خودی
وہ نگاہ مست جہاں اٹھی مرا جام زندگی بھر گیا
اس کے ہوتے خودی سے پاک ہوں میں
خوب ہے بے خودی نہیں جاتی
عموما خانۂ دل میں محبت آ ہی جاتی ہے
خودی خوداعتمادی میں بدل جائے تو بندوں کو
بے خودی کی یہی تکمیل ہے شاید اے دوست
تو جو آتا ہے تو میں ہوش میں آ جاتا ہوں
وفور بے خودیٔ بزم مے نہ پوچھو رات
کوئی بجز نگۂ یار ہوشیار نہ تھا
بیدمؔ خستہ ہے کہاں اصل میں کوئی اور ہے
زمزمہ سنج بے خودی نغمہ طراز ساز عشق
تو اے محبت گواہ رہنا کہ تیرے مضطرؔ کو وقت آخر
خیال ترک خودی رہا ہے تو دل میں یاد خدا رہی ہے
ہم تو اپنی بے خودیٔ شوق میں سرشار تھے
آپ سے کس نے کہا تھا خود نما ہو جائیے
اب نہ اپنا ہوش ہے مجھ کو نہ کچھ اس کا خیال
بے خودی طاری ہے جب سے ہو گئی رفتار اور
نہ چھیڑ اے ہم نشیں کیفیت صہبا کے افسانے
شراب بے خودی کے مجھ کو ساغر یاد آتے ہیں
کیا کہوں کیا لا مکاں میں عمر مضطرؔ کاٹ دی
بے خودی نے جس جگہ رکھا وہاں رہنا پڑا
وصل عین دوری ہے بے خودی ضروری ہے
کچھ بھی کہہ نہیں سکتا ماجرا جدائی کا
جہان بیخودی میں مستیٔ وحدت جو لے جائے
فرشتے لیں قدم میرے وہ ہوں میں رند مستانہ
قدم قدم پہ رہی ایک یاد دامن گیر
تمہاری بزم میں یہ مجھ کو بے خودی نہ ہوئی
سر جب سے جھکایا ہے در یار پہ میں نے
محراب خودی جلوہ گہہ شمع حرم ہے
یہ نرم و ناتواں موجیں خودی کا راز کیا جانیں
قدم لیتے ہیں طوفاں عظمت ساحل سمجھتے ہیں
مے خانہ میں خودی کو نہیں دخل شیخ جی
بے خودی ہوا ہے جن نے پیا ہے وہ جام خاص
سیمابؔ کوئی مرتبہ منصور کا نہ تھا
لفظ خودی کی شرح نہ مشہور کر دیا
کہہ دیا فرعون نے بھی میں خدا کر کے خودی
ہو کے بے خود جب کہے انکار کی حاجت نہیں
نگاہ یار مری سمت پھر اٹھی ہوگی
سنبھل سکوں گا نہ میں ایسی یہ بے خودی ہوگی
شۂ بے خودی نے عطا کیا مجھے اب لباس برہنگی
نہ خرد کی بخیہ گری رہی نہ جنوں کی پردا دری رہی
نہ وہ ہوش ہے نہ وہ بے خودی نہ خرد رہی نہ جنوں رہا
یہ تری نظر کی ہیں شوخیاں یہ کمال ہے ترے ناز میں
دوئی جا کے رنگ صفا رہ گیا
خودی مٹتے مٹتے خدا رہ گیا
کیوں یہ خدا کے ڈھونڈنے والے ہیں نامراد
گزرا میں جب حدود خودی سے خدا ملا
یہ کس نے نگاہوں سے ساغر پلائے خودی پر میری بے خودی بن کے چھائے
خبردار اے دل مقام ادب ہے، کہیں بادانوشی پے دھبا نا آئے
مشکل ہے تا کہ ہستی ہے جاوے خودی کا شرک
تار نفس نہیں ہے یہ زنار ساتھ ہے
aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere