Sufinama

خوشی پر اشعار

خوشی سے دور ہوں نا آشنائے بزم عشرت ہوں

سراپا درد ہوں وابستۂ زنجیر قسمت ہوں

شاہ محسن داناپوری

خوشی سے دور ہوں نا آشنائے بزم عشرت ہوں

سراپا درد ہوں وابستۂ زنجیر قسمت ہوں

شاہ محسن داناپوری

جو کچھ بھی خوشی سے ہوتا ہے یہ دل کا بوجھ نا بن جائے

پیمان وفا بھی رہنے دو سب جھوٹی باتیں ہوتی ہیں

آرزو لکھنوی

جو کچھ بھی خوشی سے ہوتا ہے یہ دل کا بوجھ نا بن جائے

پیمان وفا بھی رہنے دو سب جھوٹی باتیں ہوتی ہیں

آرزو لکھنوی

غم جاناں سے دل مانوس جب سے ہو گیا مجھ کو

ہنسی اچھی نہیں لگتی خوشی اچھی نہیں لگتی

پرنم الہ آبادی

غم جاناں سے دل مانوس جب سے ہو گیا مجھ کو

ہنسی اچھی نہیں لگتی خوشی اچھی نہیں لگتی

پرنم الہ آبادی

کیا پوچھتے ہو مجھ سے مرے دل کی آرزو

اب میری ہر خوشی ہے تمہاری خوشی کے ساتھ

کامل شطاری

کیا پوچھتے ہو مجھ سے مرے دل کی آرزو

اب میری ہر خوشی ہے تمہاری خوشی کے ساتھ

کامل شطاری

ہر چند فقط مختار نہیں ہر چند فقط مجبور نہیں

اک آہ تو بھر لوں اپنی خوشی اتنا بھی مجھے مقدور نہیں

کامل شطاری

ہر چند فقط مختار نہیں ہر چند فقط مجبور نہیں

اک آہ تو بھر لوں اپنی خوشی اتنا بھی مجھے مقدور نہیں

کامل شطاری

وہ مجھ سے ملنے کو آئے ہیں میری موت کے بعد

خوشی بھی میرے لیے غم ہے کیا کیا جائے

پرنم الہ آبادی

وہ مجھ سے ملنے کو آئے ہیں میری موت کے بعد

خوشی بھی میرے لیے غم ہے کیا کیا جائے

پرنم الہ آبادی

تمنا دو دلوں کی ایک ہی معلوم ہوتی ہے

اب ان کی ہر خوشی اپنی خوشی معلوم ہوتی ہے

کامل شطاری

تمنا دو دلوں کی ایک ہی معلوم ہوتی ہے

اب ان کی ہر خوشی اپنی خوشی معلوم ہوتی ہے

کامل شطاری

نہیں دیتا جو مے اچھا نہ دے تیری خوشی ساقی

پیالے کچھ ہمیشہ طاق پر رکھے نہیں رہتے

مضطر خیرآبادی

نہیں دیتا جو مے اچھا نہ دے تیری خوشی ساقی

پیالے کچھ ہمیشہ طاق پر رکھے نہیں رہتے

مضطر خیرآبادی

وہ بحر حسن شاید باغ میں آوے گا اے احساںؔ

کہ فوارہ خوشی سے آج دو دو گز اچھلتا ہے

عبدالرحمٰن احسان دہلوی

وہ بحر حسن شاید باغ میں آوے گا اے احساںؔ

کہ فوارہ خوشی سے آج دو دو گز اچھلتا ہے

عبدالرحمٰن احسان دہلوی

میں جیا بھی دنیا میں اور جان بھی دے دی

یہ نہ کھل سکا لیکن آپ کی خوشی کیا تھی

سیماب اکبرآبادی

میں جیا بھی دنیا میں اور جان بھی دے دی

یہ نہ کھل سکا لیکن آپ کی خوشی کیا تھی

سیماب اکبرآبادی

ہے یہی شرط بندگی کے لئے

سر جھکاؤں تیری خوشی کے لئے

صادق دہلوی

ہے یہی شرط بندگی کے لئے

سر جھکاؤں تیری خوشی کے لئے

صادق دہلوی

ہوا عشق سے یہ ہمیں استفادہ مزے میں وہی ہے جو ہے بے ارادہ

انہیں کی خوشی میں مزیداریاں ہیں نہیں تو بڑا دکھ اٹھانا پڑےگا

کامل شطاری

ہوا عشق سے یہ ہمیں استفادہ مزے میں وہی ہے جو ہے بے ارادہ

انہیں کی خوشی میں مزیداریاں ہیں نہیں تو بڑا دکھ اٹھانا پڑےگا

کامل شطاری

ہم وصل میں ایسے کھوئے گئے فرقت کا زمانا بھول گئے

ساحل کی خوشی میں موجوں کا طوفان اٹھانا بھول گئے

کامل شطاری

ہم وصل میں ایسے کھوئے گئے فرقت کا زمانا بھول گئے

ساحل کی خوشی میں موجوں کا طوفان اٹھانا بھول گئے

کامل شطاری

خوشی ہے سب کو روز عید کی یاں

ہوئے ہیں مل کے باہم آشنا خوش

میر محمد بیدار

خوشی ہے سب کو روز عید کی یاں

ہوئے ہیں مل کے باہم آشنا خوش

میر محمد بیدار

دہر فانی میں ہنسی کیسی خوشی کیا چیز ہے

رونے آئے تھے یہاں دو چار دن کو رو

سنجر غازیپوری

دہر فانی میں ہنسی کیسی خوشی کیا چیز ہے

رونے آئے تھے یہاں دو چار دن کو رو

سنجر غازیپوری

ملنے کی ہے خوشی تو بچھڑنے کا ہے ملال

دل مطمئن بھی آپ سے ہے بے قرار بھی

پرنم الہ آبادی

ملنے کی ہے خوشی تو بچھڑنے کا ہے ملال

دل مطمئن بھی آپ سے ہے بے قرار بھی

پرنم الہ آبادی

خوشی ہے زاہد کی ورنہ ساقی خیال توبہ رہے گا کب تک

کہ تیرا رند خراب افقرؔ ولی نہیں پارسا نہیں ہے

افقر موہانی

خوشی ہے زاہد کی ورنہ ساقی خیال توبہ رہے گا کب تک

کہ تیرا رند خراب افقرؔ ولی نہیں پارسا نہیں ہے

افقر موہانی

خوشی محسوس کرتا ہوں نہ غم محسوس کرتا ہوں

مگر ہاں دل میں کچھ کچھ زیر و بم محسوس کرتا ہوں

بہزاد لکھنوی

خوشی محسوس کرتا ہوں نہ غم محسوس کرتا ہوں

مگر ہاں دل میں کچھ کچھ زیر و بم محسوس کرتا ہوں

بہزاد لکھنوی

کہیں روشنی کہیں تیرگی جو کہیں خوشی تو کہیں غمی

تیری بزم میں ہمیں دخل کیا ترے اہتمام کی بات ہے

عزیز وارثی دہلوی

کہیں روشنی کہیں تیرگی جو کہیں خوشی تو کہیں غمی

تیری بزم میں ہمیں دخل کیا ترے اہتمام کی بات ہے

عزیز وارثی دہلوی

حنا کی طرح اگر دسترس مجھے ہوتی

تو کس خوشی سے ترے پاؤں میں لگا کرتا

میر محمد بیدار

میں ہوں ایک عاشق بے نوا تو نواز اپنے پیام سے

یہ تری رضا پہ تری خوشی تو پکار لے کسی نام سے

فنا بلند شہری

میں ہوں ایک عاشق بے نوا تو نواز اپنے پیام سے

یہ تری رضا پہ تری خوشی تو پکار لے کسی نام سے

فنا بلند شہری

جبین یار سے افشاں کی دیکھی ذرہ افشانی

خوشی کے پھول جھڑتے ہیں چراغ ماۂ انور سے

بحر لکھنوی

جبین یار سے افشاں کی دیکھی ذرہ افشانی

خوشی کے پھول جھڑتے ہیں چراغ ماۂ انور سے

بحر لکھنوی

کدھر کی خوشی کہاں کی شادی

جب دل سے ہوس ہی سب اڑا دی

خواجہ میر اثر

کدھر کی خوشی کہاں کی شادی

جب دل سے ہوس ہی سب اڑا دی

خواجہ میر اثر

خوشی سے پاؤں پھیلاتے ہیں کیا کیا کنج تربت میں

عجب لذت ہے ترے ہاتھ سے قاتل شہادت میں

کوثر خیرآبادی

خوشی سے پاؤں پھیلاتے ہیں کیا کیا کنج تربت میں

عجب لذت ہے ترے ہاتھ سے قاتل شہادت میں

کوثر خیرآبادی

خوشی سے چوٹ کھانے کا مزہ یا کیف جاں سوزی

کوئی جاں سوز پروانہ یا کوئی دل جلا جانے

بیخود سہر وردی

خوشی سے چوٹ کھانے کا مزہ یا کیف جاں سوزی

کوئی جاں سوز پروانہ یا کوئی دل جلا جانے

بیخود سہر وردی

غم جاناں سے دل مانوس جب سے ہو گیا مجھ کو

ہنسی اچھی نہیں لگتی خوشی اچھی نہیں لگتی

پرنم الہ آبادی

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

متعلقہ موضوعات

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے