خسرو کی یہ مثنوی عشقیہ مثنوی میں شمار کی جاتی ہے۔ نیز یہ مثنوی موجودہ معروف نام کے علاوہ بھی متعدد ناموں سے معروف ہے جیسے عشیقہ، عشقیہ، عاشقیہ مگر مصحح نے اس کو دولرانی خضر خان کے نام سے تحریر کیا ہے اور اس کے لئے خسرو کے کلام سے ہی دلیل پیش کی ہے۔ اس مثنوی میں شاہزادہ خضر خان اور راجہ کرن والی گجرات کی بیٹی دیولدی کی عشق و محبت کی تاریخی داستان کو خضر خان کی فرمائش پر نظم کا جامہ پہنایا گیا ہے۔ یہ مثنوی 715 ھ میں چار مہینہ ے کچھ زیادہ وقت میں نظم ہوئی۔ ویسے تو قصائد میں گریز کا التزام کیا جاتا ہے مگر خسرو نے اپنی اس مثنوی میں بھی خوب خوب گریز سے کام لیا ہے۔ خسرو اس مثنوی میں جب بھی کوئی داستان ختم کرتے ہیں تو اس کے آخر میں دو غزلیں تحریر کرتے ہیں۔ پہلی غزل عاشق کی زبان سے اور دوسری غزل معشوق کی زبان سے جو اس کا جواب ہوتی ہے۔ مصحح نے تصحیح کے ساتھ ساتھ نقد و انتقاد کا بھی التزام کیا ہے۔
امیرخسرو کی پیدائش 651ھ موافق 1253ء میں موجودہ ضلع کانسی رام نگر، اتر پردیش کے پٹیالی میں ہوئی۔ نام یمین الدین اور لقب ابوالحسن تھا۔ عام بول چال میں آپ کو امیر خسرو کہا جا تا ہے۔
آپ کے والد امیر سیف الدین لاچین قوم کےایک ترک سردار تھے۔ منگولوں کے حملوں کے وقت ہندوستان آئے اور پٹیالی (آگرہ) میں سکونت اختیار کیا۔ ان کى والدہ ہندوستانی تھیں۔ آٹھ سال کی عمر میں یتیم ہوئے۔ کچھ عرصہ بعد یہ خاندان دہلی منتقل ہوگیا۔
امیرخسرو نے سلطنت دہلی کے آٹھ بادشاہوں کا زمانہ دیکھا۔ آپ نے برصغیر میں اسلامی سلطنت کے ابتدائی ادوار کی سیاسی، سماجی اور ثقافتی زندگی میں سرگرم حصہ لیا۔ محبوب الہی خواجہ نظام الدین اولیا کے بڑے چہیتے مرید تھے۔ خسرو کو بھی مرشد سے انتہائی عقیدت تھی۔ خسرو نے ہر صنف شعر، مثنوی، قصیدہ، غزل، اردو دوہے، پہیلیاں اور گیت وغیرہ میں طبع آزمائی کی۔ غزل میں پانچ دیوان یادگار چھوڑے۔ ہندوستانی موسیقی میں ترانہ، قول اور قلبانہ انہی کی ایجاد ہے۔ بعض ہندوستانی راگنیوں میں ہندوستانی پیوند لگائے۔ راگنی (ایمن کلیان) جو شام کے وقت گائی جاتی ہے انہی کی ایجاد ہے۔ کہتے یہ کہ ستار پر تیسرا تار آپ ہی نے چڑھایا۔ خواجہ نظام الدین اولیا کے مرید تھے اور انہیں کے قدموں میں دفن ہوئے۔
آپ کا تاریخ وصال 18 شوال المکرم 725ھ موافق 1325ء ہے۔
امیر خسرو شاعری سے ہی نہیں بلکہ موسیقی سے بھی کافی دلچسپی رکھتے تھے۔ ہندوستانی کلاسیکی موسیقی کی ایک اہم شخصیت بھی مانے جاتے ہیں۔ کلاسیکی موسیقی کے اہم ساز طبلہ اور ستار انہی کی ایجاد مانی جاتی ہے۔ فن موسیقی کے اجزا جیسے خیال اور ترانہ بھی انہیں کی ایجاد ہے۔ دنیا میں اردو کا پہلا شعر امیرخسرو ہی کی طرف منسوب ہے۔ اس سلسلے میں اردو کے ابتدائی موجدین میں ان کا نام شمار ہے۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets