یہ مثنوی امیر خسرو کے خمسہ کی ترتیب کے لحاظ سے دوسری مثنوی ہے جو "مطلع الانوار" کے بعد مورد وجود میں آئی۔ خسرو نے یہ مثنوی 698 ھ میں شیرین و خسرو کے نام سے نظم کی۔ ان کی یہ مثنوی یقینا نظامی کی مثنوی کے ہم پلہ ہے۔ یہ مثنوی ایجادات و اختراعات،استعارات و تشبیہات،صنایع و بدایع،واقعہ نویسی، قوت تخئیل، فصاحت و بلاغت، جدت اسلوب کا مرقع ہے۔ رزم و بزم، حسن و عشق ،فلسفیانہ شاعری اور اخلاقیات، مناظر قدرت، سوز و گداز ، صوفیانہ رنگ سب ہی کچھ اپنے کمال کے ساتھ ،موجود ہے ۔اگر کسی نے خمسہ نظامی کی پیروی کی ہے تو وہ خسرو ہیں جنہوں نے نظامی کے قصوں سے اختلاف کے ساتھ ساتھ اس میں کچھ نئے پہلو اور جدت کا ثبوت دیا ہے۔اس لحاظ سے ہم خسرو کو صحیح معنی میں نظامی کا پیروکار کہہ سکتے ہیں۔ اس مثنوی کو حاجی علی احمد خان اسیر نے مرتب کیا ہے۔ مرتب نے امیر خسرو کی سوانح کے علاوہ اس مثنوی کے فن اور موضوع پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ مثنوی کی ایک ایک خصوصیت کو باقاعدہ عنوان قائم کرکے بیان کیا گیا ہے۔ اس لئے مثنوی کی تفہیم دو بالا ہوجاتی ہے۔
امیرخسرو کی پیدائش 651ھ موافق 1253ء میں موجودہ ضلع کانسی رام نگر، اتر پردیش کے پٹیالی میں ہوئی۔ نام یمین الدین اور لقب ابوالحسن تھا۔ عام بول چال میں آپ کو امیر خسرو کہا جا تا ہے۔
آپ کے والد امیر سیف الدین لاچین قوم کےایک ترک سردار تھے۔ منگولوں کے حملوں کے وقت ہندوستان آئے اور پٹیالی (آگرہ) میں سکونت اختیار کیا۔ ان کى والدہ ہندوستانی تھیں۔ آٹھ سال کی عمر میں یتیم ہوئے۔ کچھ عرصہ بعد یہ خاندان دہلی منتقل ہوگیا۔
امیرخسرو نے سلطنت دہلی کے آٹھ بادشاہوں کا زمانہ دیکھا۔ آپ نے برصغیر میں اسلامی سلطنت کے ابتدائی ادوار کی سیاسی، سماجی اور ثقافتی زندگی میں سرگرم حصہ لیا۔ محبوب الہی خواجہ نظام الدین اولیا کے بڑے چہیتے مرید تھے۔ خسرو کو بھی مرشد سے انتہائی عقیدت تھی۔ خسرو نے ہر صنف شعر، مثنوی، قصیدہ، غزل، اردو دوہے، پہیلیاں اور گیت وغیرہ میں طبع آزمائی کی۔ غزل میں پانچ دیوان یادگار چھوڑے۔ ہندوستانی موسیقی میں ترانہ، قول اور قلبانہ انہی کی ایجاد ہے۔ بعض ہندوستانی راگنیوں میں ہندوستانی پیوند لگائے۔ راگنی (ایمن کلیان) جو شام کے وقت گائی جاتی ہے انہی کی ایجاد ہے۔ کہتے یہ کہ ستار پر تیسرا تار آپ ہی نے چڑھایا۔ خواجہ نظام الدین اولیا کے مرید تھے اور انہیں کے قدموں میں دفن ہوئے۔
آپ کا تاریخ وصال 18 شوال المکرم 725ھ موافق 1325ء ہے۔
امیر خسرو شاعری سے ہی نہیں بلکہ موسیقی سے بھی کافی دلچسپی رکھتے تھے۔ ہندوستانی کلاسیکی موسیقی کی ایک اہم شخصیت بھی مانے جاتے ہیں۔ کلاسیکی موسیقی کے اہم ساز طبلہ اور ستار انہی کی ایجاد مانی جاتی ہے۔ فن موسیقی کے اجزا جیسے خیال اور ترانہ بھی انہیں کی ایجاد ہے۔ دنیا میں اردو کا پہلا شعر امیرخسرو ہی کی طرف منسوب ہے۔ اس سلسلے میں اردو کے ابتدائی موجدین میں ان کا نام شمار ہے۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets