Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama
Abu Bakr Shibli's Photo'

अबू बक्र शिबली

861 - 946 | बग़दाद, इराक़

अबू बक्र शिबली के सूफ़ी उद्धरण

2
Favorite

श्रेणीबद्ध करें

صوفیہ خدا کی گود میں کھیلتے ہوئے بچے ہیں، تصوف ایک چمکتی ہوئی بجلی کی لپک ہے اور تصوف خلق سے بے نیاز ہو جانے کا نام ہے۔

محبت کو محبت اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ دل سے محبوب کے سوا ہر چیز کو مٹا دیتی ہے۔

عارف نہ غیر کی طرف دیکھتا ہے، نہ غیر کی بات کرتا ہے اور نہ اپنے لیے خدائے تعالیٰ کے سوا کسی کو کارساز جانتا ہے۔

ذکرِ حق کی سچائی اس میں ہے کہ بندہ اپنے ذکر کو بھول جائے، کیوں کہ ذکر کا شعور رکھنا، اپنے وجود کی نسبت کو باقی رکھنا ہے اور سچی یاد میں ’’میں‘‘ باقی نہیں رہتی۔

محبت یہ آگ کا پیالہ ہے جو شدید بھڑکتا ہے، جب یہ حواس میں جڑ پکڑ لیتا ہے اور دل میں بیٹھ جاتا ہے تو فنا کر دیتا ہے۔

کسی نے پوچھا کہ محبت کیا ہے؟ فرمایا کہ یہ ایک پیالۂ آتش ہے جو سخت بھڑکتا ہے، جب یہ حواس میں جگہ پاتا ہے اور دل میں جم جاتا ہے تو سب کچھ فنا کر دیتا ہے۔

عارفِ روشن ضمیر کے لیے ایک لمحے کی غفلت بھی رب سے کفر کے مترادف ہے۔

ہزار برس گزرے ہوں یا ہزار برس آنے والے ہوں، تیرے لیے سب سے قیمتی یہی موجودہ لمحہ ہے، مادی دھوکے میں نہ پڑ، جان لے کہ عالمِ روح میں ماضی، حال اور مستقبل سب ایک ہی حقیقت رکھتے ہیں۔

صوفی خلق سے کٹا ہوا ہوتا ہے اور حق سے جڑا ہوا۔

عارف کے لیے کوئی وابستگی نہیں، عاشق کے لیے کوئی شکوہ نہیں، بندے کے لیے کوئی دعویٰ نہیں، خداترس کے لیے کوئی سکون نہیں اور کسی کے لیے بھی خدا سے فرار ممکن نہیں۔

خدا یقیناً رحمت والا ہے، میں اس کی رحمت کو جانتا ہوں لیکن میں نے کبھی بھی اس سے اپنی طرف سے رحم کی درخواست نہیں کی۔

شکرگزاری انعامات کا ادراک نہیں بلکہ دینے والے کا ادراک ہے۔

روشنی یافتہ ولی خدا کے سوا کسی کو نہیں دیکھتا، اس کے سوا کسی سے نہیں ملتا اور اس کے سوا کسی سے محبت نہیں کرتا۔

استقامت کا مطلب یہ ہے کہ ہر لمحے کو اس طرح جیو گویا وہ قیامت کا لمحہ ہو۔

کسی فرد کا سب سے بڑا خسارہ یہ ہے کہ وہ دیدارِ الٰہی سے محروم رہ جائے۔

فقر کی ادنیٰ ترین نشانی یہ ہے کہ اگر دنیا کی ساری دولت کسی شخص کو دے دی جائے اور وہ اسے ایک ہی دن میں راہِ خدا میں خرچ کر دے، پھر اس کے دل میں یہ خیال آئے کہ کاش ایک دن کی روٹی کے لیے کچھ بچا لیتا تو وہ اپنے فقر میں سچا نہیں۔

جو شخص محض معمول کے طور پر وعظ کرتا ہے اور جو سامعین اسے اسی انداز سے سنتے ہیں، وہ اس وعظ سے کوئی فائدہ حاصل نہیں کرتے بلکہ نقصان اٹھاتے ہیں۔

دنیا کی کوئی شئے مجھے اپنی طرف مائل نہیں کر سکتی، نہ ہی کسی شے کی خوبی یا خوبصورتی مجھے اپنا غلام بنا سکتی ہے۔

ایک بار شبلی کو دیوان خانے میں قید کیا گیا، عزیز دوست اس کی عیادت کو آئے، شبلی نے ان پر پتھر پھینکنے شروع کر دیے، تو وہ سب بھاگ گئے، شبلی ہنسنے لگے اور بولے کہ

اے جھوٹے دعوے دارو! اگر تم واقعی میرے دوست ہوتے، تو میری آزمائش پر صبر کرتے لیکن تم تو بھاگ نکلے

ایک طویل عرصے تک مجھے یہ گمان رہا کہ میں محبتِ الٰہی میں سرشار ہوں اور اس کے ذکر و مراقبے میں محو ہوں مگر اب معلوم ہوا کہ انس صرف ہم جنس سے ہی ممکن ہے۔

اے خدا! تُو زبردست اور عظیم ہے، قیامت کے دن مجھے اندھا اٹھانا تاکہ میری آنکھیں بھی تجھے نہ دیکھ سکیں۔

تصوف شرک ہے کیوں کہ یہ دل کو ’’غیر‘‘ کے تصور سے بچانے کا نام ہے، حالاں کہ غیر تو وجود ہی نہیں رکھتا۔

نفسِ امارہ خارجی یا غیر حقیقی دنیا کا حصہ ہے، اس لیے ولی اپنے باطن کی حفاظت کرتا ہے۔

غیرت کی دو قسمیں ہیں۔

انسانوں کی غیرت ایک دوسرے کے لیے اور الٰہی غیرت انسانوں کے دلوں کی حفاظت کے لیے، الٰہی غیرت انسانوں کی سانسوں کے لیے ہے، تاکہ وہ کسی اور کی طرف صرف نہ ہوں، سوائے اللہ کے۔

محبت یہ ہے کہ تم اپنے محبوب کے لیے ایسے غیرت مند ہو جاؤ کہ کوئی اور تمہاری مانند اسے نہ چاہے۔

کسی نے شبلی سے پوچھا کہ سورج غروب کے وقت زرد کیوں ہو جاتا ہے؟ شبلی نے جواب دیا کہ

اس لیے کہ وہ مقامِ کمال سے کٹ جاتا ہے اور زردی اس کے دل کے اس خوف کی علامت ہے جو خدا کے حضور کھڑا ہونے کے تصور سے پیدا ہوتا ہے

کسی نے پوچھا کہ

صبر کرنے والوں کے لیے سب سے مشکل صبر کون سا ہے؟

انہوں نے فرمایا کہ

خدا کی طرف صبر، خدا کے لیے صبر، خدا کے ساتھ صبر... اور آخرکار، خدا سے دوری پر صبر؟

یہ کہتے ہوئے وہ چیخ پڑے اور ان کی روح گویا فنا کے قریب پہنچ گئی۔

جو شخص رات میں ایک گھڑی غفلت میں سوتا ہے، وہ روحانی دوڑ میں آخرکار ایک ہزار برس پیچھے رہ جاتا ہے۔

جو چیز تمہارے نصیب میں ہے وہ تمام رکاوٹوں کے باوجود تمہیں مل کر رہے گی اور جو چیز تمہارے مقدر میں نہیں ہے وہ تمہاری ساری کوششوں کے باوجود تمہیں حاصل نہیں ہو سکتی تو پھر کس چیز سے زہد اختیار کی جائے؟

تصوف اعضا پر قابو پانے اور سانسوں کی نگہداشت کا نام ہے۔

میں وجود کا سب سے چھوٹا، مخفی اور بنیادی راز ہوں وہ نکتہ جو کلامِ الٰہی کی ابتدا ہے۔

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

Recitation

बोलिए