Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama
noImage

अबुल क़ासिम क़ुशैरी

986 - 1072 | निशापुर, ईरान

अबुल क़ासिम क़ुशैरी के सूफ़ी उद्धरण

عرفان وہ حال ہے جس میں بندہ خدا کو اس کے اسما و صفات سے پہچانتا ہے، اخلاص سے عمل کرتا ہے، نفس کی خرابیوں سے پاک ہوتا ہے اور دل کو خدا میں محو کر دیتا ہے۔

جب صوفی مخلوق سے بیگانہ ہو جائے، نفس کی کمزوریوں سے آزاد ہو، باطن میں ہمیشہ خدا سے ہم کلام رہے، ہر لمحہ اس کی طرف رجوع کرے اور اس کے احکام کے اسرار پا لے تو وہ عارف کہلاتا ہے اور اس کا حال معرفت۔

تصوف کے دو رخ ہیں۔

(۱) وجد

(۲) کشف

کشف مبتدیوں کا مقام ہے اور اس کا اظہار اکثر وارفتگی و بے خودی ہوتا ہے۔

وجد اہلِ کمال کا حصہ ہے اور جب تک وجد قائم ہو، اس کا بیان ممکن نہیں ہوتا۔

جو Divine انکشاف ان پر ہوتا ہے جو دل میں انتظار و توقع رکھتے ہیں، وہ پہلے بجلی کی چمک کی طرح آتا ہے پھر نور کی کرنوں کی مانند اور آخر میں مکمل تجلی کے ساتھ ظاہر ہوتا ہے۔

امید خدا کے حسنِ کامل کے دیدار کا اشتیاق ہے۔

محبت محب کی صفات کا مٹ جانا اور محبوب کی ذات کا قائم ہو جانا ہے۔

امید اور خوف پرندے کے دو پروں کی مانند ہیں جو سیدھی منزل کی طرف پرواز کرتا ہے، اگر ایک پر ٹوٹ جائے تو پرواز رک جاتی ہے اور اگر دونوں ٹوٹ جائیں تو پرندہ مر جاتا ہے۔

صوفی اس بیماری کی طرح ہے جسے بصرم کہتے ہیں جو ابتدائی طور پر ہیجان اور دیوانگی سے شروع ہوتی ہے اور آخرکار خاموشی پر ختم ہوتی ہے، کیوں کہ جب آپ ثبات حاصل کر لیتے ہیں تو آپ بے زبان ہو جاتے ہیں۔

شکریہ عطا کرنے والے کی دید ہے نہ کہ عطیے کی، یہ خود خدا کی جانب سے آتا ہے۔

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

Recitation

बोलिए