Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama
noImage

बायज़ीद बस्तामी

804 - 874 | बस्ताम, ईरान

बायज़ीद बस्तामी के सूफ़ी उद्धरण

1
Favorite

श्रेणीबद्ध करें

جب میں نے دنیا کو اپنا دشمن جانا اور رب کی طرف متوجہ ہوا، تو اس کی محبت نے مجھے اس قدر گھیر لیا کہ میں خود اپنا دشمن بن گیا۔

خدا کے ولی اس کے عروس ہیں اور عروسوں کو سوائے اہلِ خاندان کے کوئی نہیں دیکھتا، وہ قربِ الٰہی کے پردوں میں مستور رہتے ہیں، نہ دنیا میں کوئی انہیں پہچانتا ہے، نہ آخرت میں۔

کسی نے پوچھا یہ معرفت تم نے کیسے پائی؟ کہا کہ بھوک سے بے تاب پیٹ اور ننگے بدن سے

میں نے دنیا سے تین بار بُعد اختیار کیا اور تنہا تنہا اس ذات کی طرف روانہ ہوا، میں حضورِ حق کے سامنے کھڑا ہو کر رویا کہ “اے رب! میری خواہش صرف تُو ہے، اگر تُو میرے پاس ہے تو میرے پاس سب کچھ ہے” جب خدا نے میری صداقت پہچانی تو پہلی عنایت یہ ہوئی کہ اس نے میرے سامنے نفس کے فضلے کو ہٹا دیا۔

کسی نے پوچھا کہ انسان کب جانتا ہے کہ اس نے اصل معرفت پا لی؟ کہا کہ جب وہ خدا کے علم کے تحت فنا ہو جائے اور خودی اور مخلوق سے بے نیاز ہو کر خدا کے حضور دائمی ہو جائے

کسی نے پوچھا کہ انکساری کب حاصل ہوتی ہے؟ جواب ملا کہ جب وہ اپنے نفس کو کسی مقام یا حال کا مالک نہ سمجھے اور انسانوں میں کوئی بھی اپنے سے بدتر نہ جانے

عارف نہ سونے میں خدا کے سوا کچھ دیکھتا ہے اور نہ جاگنے میں، وہ خدا کے سوا کسی سے مطابقت نہیں کرتا اور نہ کسی اور کی طرف دیکھتا ہے۔

محبت کرنے والوں کی نظر میں جنت کی کوئی قدر نہیں اور وہ اپنی محبت کی پردہ داری میں خدا سے پوشیدہ رہتے ہیں۔

ایک صوفی نے بایزید بسطامی کو لکھا کہ میں عشق کے جام سے پی کر مست ہوں آپ نے جواب دیا کہ کوئی اور ہے جس نے آسمان و زمین کے سمندر پی لیے پھر بھی اس کی پیاس بجھی نہیں، زبان باہر لٹکی ہے اور وہ پکار رہا ہے، کیا اور کچھ نہیں؟

اگر آٹھوں جنتیں ہمارے گوشے میں جلوہ گر ہوں اور دنیا کی سلطنت ہمارے ہاتھ میں ہو، تب بھی ہم اس ایک آہ کو ترک نہ کریں گے جو سحر کے وقت دل کی گہرائی سے یادِ الٰہی میں شوق کے مارے نکلتی ہے۔

میں کہتا ہوں کہ خدا میری ذات کا آئینہ ہے، کیوں کہ میری زبان سے وہ بات کرتا ہے اور میں خود نہیں رہا۔

انسان کے مختلف حال ہوتے ہیں لیکن عارف کے کوئی حال نہیں، اس کے انسانی صفات مٹ چکی ہیں اور اس کی ذات دوسری ذات میں گھل گئی ہے، اس کی صفات ختم ہو گئی ہیں کیوں کہ ان کی جگہ دوسری صفات نے لے لی ہیں۔

عارف اڑتا ہے اور زاہد پیدل چلتا ہے۔

جب خدا کسی سے محبت کرتا ہے تو اسے تین صفات سے نوازتا ہے۔

سمندر جیسا سخاوت، سورج جیسا ہمدردی اور زمین جیسی انکساری۔

سچا عاشق ہو تو کوئی درد بڑا نہیں، کوئی قربانی زیادہ نہیں، کیوں کہ اس کے اندر گہری بصیرت اور جلتی ہوئی ایمان ہوتی ہے۔

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

Recitation

बोलिए