پڑھ پڑھ علم ہزار کتاباں عالم ہوئے بھارے ہو
حرف اک عشق دا پڑھ نہ جانن بھلے پھرن وچارے ہو
وہی انسان ہے احساںؔ کہ جسے علم ہے کچھ
حق یہ ہے باپ سے افزوں رہے استاد کا حق
کمال علم و تحقیق مکمل کا یہ حاصل ہے
ترا ادراک مشکل تھا ترا ادراک مشکل ہے
تمہیں علم کچھ جو ہو عالمو تو بتا دو مجھ کو نہ چپ رہو
کہ شراب عشق کا مست ہوں یہ حلال ہے کہ حرام ہے
علم والوں کو شہادت کا سبق تو نے دیا
مر کے بھی زندہ رہے انساں یہ حق تو نے دیا
اتنی بات نہ بوجھی لوگاں آپ نبھاتا کری سو کوئے
علم قدرت جس تھورا ہووے کی مجبور وچارا ہوئے
گنگ ہو جائیں بس اک آن میں سب اہل زباں
ایک امی کو جو تو علم کا مصدر کر دے
یارحمت اللعالمین
آئنۂ رحمت بدن سانسیں چراغ علم وفن
علم اور فضل کے دین و ایمان کے عقل پر میری کاوشؔ تھے پردے پڑے
سارے پردے اٹھا کر کوئی اب مجھے اپنا جلوہ دکھائے تو میں کیا کروں
aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere