بطفیل دامن مرتضی میں بتاؤں کیا مجھے کیا ملا
کہ علی ملے تو نبی ملے جو نبی ملے تو خدا ملا
ایازؔ اک بیش قیمت سا تجھے نکتہ بتاتا ہوں
تم اپنے آپ کو سمجھو خدا کیا ہے خدا جانے
آؤ اک سجدہ کریں عالم مدہوشی میں
لوگ کہتے ہیں کہ ساغرؔ کو خدا یاد نہیں
مری تربت پہ خود ساقی نے آ کر یہ دعا مانگی
خدا بخشے بہت اچھی گزاری مے پرستی میں
خدا سے ترا چاہنا چاہتا ہوں
میرا چاہنا دیکھ کیا چاہتا ہوں
کام کچھ تیرے بھی ہوتے تیری مرضی کے خلاف
ہاں مگر میرے خدا تیرا خدا کوئی نہیں
عشق کی ابتدا بھی تم حسن کی انتہا بھی تم
رہنے دو راز کھل گیا بندے بھی تم خدا بھی تم
تم مرے رونے پے ہنستے ہو خدا ہنستا رکھے
یہ بھی کیا کم ہے کہ رو کر تو ہنسا سکتا ہوں، میں
لیکن اس کو اثر خدا جانے
نہ ہوا ہوگا یا ہوا ہوگا
محبت بت کدے میں چل کے اس کا فیصلہ کر دے
خدا میرا خدا ہے یا یہ مورت ہے خدا میری
خدایا خیر کرنا نبض بیمار محبت کی
کئی دن سے بہت برہم مزاج ناتوانی ہے
ترے ہاتھ میری فنا بقا ترے ہاتھ میری سزا جزا
مجھے ناز ہے کہ ترے سوا کوئی اور میرا خدا نہیں
مجھ کو خدا سے آشنا کوئی بھلا کرے گا کیا
میں تو صنم پرست ہوں میرا کوئی خدا نہیں
خدا جانے کیا ہوگا انجام اس کا
میں بے صبر اتنا ہوں وہ تند خو ہے
ان بتوں کے لئے خدا نہ کرے
دین و دل یوں کوئی بھی کھوتا ہے
مرا ایک سجدہ تو ہو چین کا
خدا ہی جو ٹھہرا خود آ جائے نا
خدا کا شکر ہے پیاسے کو دریا یاد کرتا ہے
مسافر نے فراہم کر لیا ہے کوچ کا ساماں
دل دیا جان دی خدا تو نے
تیرا احسان ایک ہو تو کہوں
خیال یار سلامت تجھے خدا رکھے
ترے بغیر کبھی گھر میں روشنی نہ ہوئی
تم سلامت رہو قیامت تک
اور قیامت خدا کرے کہ نہ ہو
خدا حافظ اب دل کی خود داریوں کا وہ آتے نہیں ان کو لانا پڑےگا
محبت سے مجبور ہوں، کیا بتاؤں انہیں کیسے کیسے منانا پڑےگا
تم خفا ہو تو اچھا خفا ہو
اے بتو کیا کسی کے خدا ہو
دیکھا جو اس صنم کو تو محسوس یہ ہوا
جلوہ خدا کا صورت انسان ہو گیا
آپ معشوق کیا ہو گئے
عاشقوں کے خدا ہو گئے
کوئی ہے مومن کوئی ہے ترسا خدا کی باتیں خدا ہی جانے
عجب طرح کا ہے یہ تماشہ خدا کی باتیں خدا ہی جانے
آ پھنسوں میں بتوں کے دام میں یوں
دردؔ یہ بھی خدا کی قدرت ہے
تو کو بتاؤں سن رے سکھی ری مرشد پیا کی صورت کس کی
یہی ہے صورت شیر خدا کی بانکی چتون کاری اکھیاں
جس پہ تیری نظر نہیں ہوتی
اس کی جانب خدا نہیں ہوتا
ہمیں خدا کے سوا کچھ نظر نہیں آتا
نکل گئے ہیں بہت دور جستجو کرتے
کوئی دنیا میں نہیں آیا ہمیشہ کے لیے
بس خدا کا نام ہی نام خدا رہ جائے گا
یا خدا اکبرؔ کی کشتی کو نکال
تو ہی اس بیڑے کا کھیون ہار ہے
ڈھونڈھے اسرار خدا دل نے جو اندھا بن کر
رہ گیا آپ ہی پہلو میں معمہ بن کر
بے خودی گر ہو خود تو آ کے ملے
اے خدا بے خودی عجب شے ہے
بزم خلوت میں وہ سوتے ہیں دوپٹہ تانے
جلوۂ حسن خدا داد ہے اندر باہر
خدا جانے کہتا ہوں مستی میں کیا
خدا جانے بکتا ہوں کیا جوش میں
خدا جانے مری مٹی ٹھکانے کب لگے مضطرؔ
بہت دن سے جنازہ کوچۂ قاتل میں رکھا ہے
خدا جانے دکھائے گی یہ کیا رنگ
دعائیں جمع ہیں عرش بریں پر
خدا کے واسطے اس کو نہ ٹوکو
یہی اک شہر میں قاتل رہا ہے
خدا جانے مری مٹی ٹھکانے کب لگے مضطرؔ
بہت دن سے جنازہ کوچۂ قاتل میں رکھا ہے
جب خدا سے لو لگائی جائے گی
پھر دعا کب کوئی خالی جائے گی
خدا بھی اسی کی طرف ہوگا بے شک
قیامت میں کیا ہوگا جانے سے حاصل
کسی بت کی ادا نے مار ڈالا
بہانے سے خدا نے مار ڈالا
خدا شاہد ہے اس شمع فروزاں کی ضیا تم ہو
میں ہرگز یہ نہیں کہتا تمہیں میرے خدا تم ہو
قناعت دوسرے کے آسرے کا نام ہے مضطرؔ
خدا ہے جو کوئی حد توکل سے نکل آیا