احقر بہاری کا تعارف
احقر بہاری صوبہ بہار کے عظیم شعرا کی فہرست میں شامل ہیں، آپ کا اسم گرامی بشارت حسین اور تخلص احقر ہے، آپ اصل میں تلہاڑہ کے متصل ایک شرفا کی بستی بڑاڑی تھی، وہاں کے رہنے والے تھے، آپ کے والد کا نام شیخ اکبر حسین تھا جو اسی گاؤں کے رئیس تھے، آپ کی پیدائش 1276ھ موافق 1859ء کو اسی گاؤں میں ہوئ، ابتدائی تعلیم کے بعد وہ بہار شریف چلے گئے اور پھر وہاں سے پٹنہ میں عربی و فارسی کی اعلی تعلیم کے لئے آۓ مگر کچھ دنوں کے بعد پھر بہار شریف چلے آۓ، شاعری کا شوق بچپن ہی سے تھا، 1303ھ میں لکھنؤ تشریف لے گئے اور وہاں کی ادبی سرگرمیوں میں حصہ لینے لگے، خواجہ حیدر علی آتش کے شاگرد جناب صبا کا لکھنؤ میں اس وقت زور تھا چنانچہ صبا کے ممتاز شاگرد ازل لکھنؤی سے اصلاح لینی شروع کردی اس پر احقر کو فخر تھا، احقر ایک شعر میں اپنے اس خیال کااظہار یوں کیا ہے۔
سب جانتے ہیں احقر شاگرد ہوں ازل کا استاد مانتے ہیں اردو زبان والے
احقر بہاری دکن بھی تشریف لے گئے تھے اور نوابوں کے دربار میں رسائ بھی ہوئ تھی، دکن کی واپسی پر وہ کان پور میں رہنے لگے ان کے قیام ہی کے زمانے میں کان پور کی مچھلی بازار فساد رونما ہوا تھا، احقر بھی اس سے متاثر ہوۓ ایک مسدس لکھا جسے عوام نے خوب پسند بھی کیا اس دوران احقر کو گرفتار کر لیا گیا تھا اور پھر بہار شریف بھیج دیا گیا یہاں ان کو خبر ملی کہ ان کے صاحبزادے انتقال کرگئے ہیں تو احقر کو اس کا تا زندگی افسوس رہا۔ احقر کی زبان میں لطف بھی ہے اور رنگینی بیان بھی بلکہ درد کی داستان ہے، وہ خود اپنے ایک شعر میں اس طرح کہتے ہیں۔ اے اہل سخن ! ان شعروں میں تاثیر ہوئ ہے کب پیدا جب درد کو دل میں رکھا ہے آغوش میں غم کو پالا ہے احقر بہاری کی غزلوں میں نہ صرف زبان کی چاشنی، محاورے اور روزمرہ کی رنگینی ہے بلکہ ان کے کلام میں کیف و سرمستی کی بھی ہَماہَمی یے، احقر بہاری کان پور سے آنے کے بعد بہار شریف میں قیام پذیر ہوۓ اور علم باطنی کے حصول کی طرف دل نے رغبت کی، تصوف کی طرف جھکاؤ ہوا اور حضرت سید شاہ ولایت علی ہمدانی اسلام پوری کے دست حق پرست پر بیعت ہوۓ اور پھر ان کے دامن سے وابستہ ہوۓ کہ ان کی شاعری بھی صوفیانہ رنگ میں رنگ گئ، داخلیت کا عنصر غالب آ گیا، واردات قلبی اور معارف و آگہی کی کیفیتیں ان کی شاعری پر غالب آگئیں اور اس کے بعد انہوں نے گویا شاعری ترک کردی اور کچھ بھی کہا تو اس میں تصوف کا رنگ و آہنگ خود ہی آگیا۔ احقر بہاری نے آخر وقت میں شعر کہنا چھوڑ دیا تھا، اس طرف یوں اشارہ کرتے ہیں۔ پوچھا جو کسی نے احقر سے کیوں مشقِ سخن کو چھوڑ دیا بولے کہ گیا جب موسمِ گل بلبل نے چمن کو چھوڑ دیا احقر بہاری نے 1348ھ میں عظیم آباد میں انتقال کیا اور محلہ سلطان گنج میں سپرد خاک ہوۓ، احقر کے تلامذہ میں شفیع بہاری اپنے عہد کے ممتاز شعرا میں شمار کئے گئے ہیں۔