امیر مینائی کا تعارف
تخلص : 'امیر'
اصلی نام : امیر احمد
پیدائش : 01 Feb 1829
وفات : 01 Oct 1900 | تلنگانہ, بھارت
رشتہ داروں : عبدالقادر شرف (مرشد), بسمل ٹونکی (مرشد), مضطر خیرآبادی (مرشد), شفق عمادپوری (مرشد), ہادی حسن خان (مرشد)
امیر احمد مینائی نام اور امیر تخلص تھا، 21 فروری 1829ء کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے، مخدوم شاہ مینا کے خاندان سے تعلق تھا اس لئے مینائی کہلائے، طب، جفر اور نجوم سے واقف تھے، اپنے علم و فضل اور قابلیت میں اپنے معاصرین سے ممتاز تھے، شعروسخن کا شوق بچپن سے تھا۔ مظفر علی اسیر سے تلمذ حاصل تھا، 1852ء میں واجد علی شاہ کے دربار سے تعلق قائم ہوا اور ان کے حکم سے دو کتابیں’’ارشاد السلطان‘‘ اور ’’ہدایت السلطان‘‘ تصنیف کیں، 1857ء کے ہنگامے کے بعد رام پور چلے گئے، نواب یوسف علی خاں والئ رام پور کے انتقال کے بعد نواب کلب علی خاں نے انھیں اپنا استاد مقرر کیا، رام پور میں 63 برس بڑی عزت و آرام سے زندگی بسر کی اور تصنیف و تالیف میں مشغول رہے، نواب کلب علی خاں کے انتقال کے بعد داغ دہلوی کے ایما پر امیر مینائی حیدر آباد گئے اور وہیں 13 اکتوبر 1900ء کو انتقال ہو.’’مرآۃ الغیب‘‘ اور ’’صنم خانۂ عشق‘‘ دو دیوان ان کی یادگار ہیں، تیسرا دیوان ’’محامد خاتم النبیین‘‘ نعت کا مجموعہ ہے،’’امیر اللغات‘‘ کی صرف دوجلدیں الف ممدودہ اور الف مقصورہ شائع ہوئیں، اس کے علاوہ ان کی نثرونظم میں معتدد تصانیف ہیں، ریاض خیرآبادی، جلیل مانک پوری، مضطر خیرآبادی اور حفیظ جونپوری ان کے مشہور شاگرد ہیں، وہ ایک مسلم الثبوت استاد تھے، ان کے کلام میں صحت زباں اور فنی پختگی بہت نمایاں ہے، ان کے کلام میں سقم مشکل ہی سے ملے گا۔