Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama
Bedil Azimabadi's Photo'

بیدل عظیم آبادی

1644 - 1720 | دہلی, بھارت

فارسی زبان کے مشہور صوفی شاعر

فارسی زبان کے مشہور صوفی شاعر

بیدل عظیم آبادی کا تعارف

مرزا عبد القادر بیدل کی پیدائش 1644ء میں ہوئی، آپ ہندوستان میں فارسی زبان کے مشہور ترین شعرا میں سے ایک ہیں، بعض مصنفین نے انہیں ایرانی بھی کہا ہے اور مسکن و مرقد بھی ایران بتایا ہے، وہ بہترین شاعر، مصنف اور فارسی زبان کے بڑے عالم تھے، ان کی شاعری میں روحانیت و معرفت دونوں پائی جاتی ہے، آپ کے آباواجداد ترک نسل کے تھے اور قبیلہ برلاس سے تعلق رکھتے تھے، وسط ایشیا سے ہندوستان آئے اور عظیم آباد میں قیام کیا، یہیں عہد شاجہانی میں پیدا ہوئے، بیدِل کے والد مرزاعبدالخالق اہلِ تصوُّف مِیں ممتاز و صاحبِ مسند و ارشاد تھے، ترکِ ما سوا اللہ ان کا مسلک تھا، ساڑھے چار سال کی عمر مِیں بیدل شفقتِ پِدری سے محروم ہو گئے اور چھ سال کی عمر میں والدہ بھی داغِ مفارقت دے گئیں، بیدل کے چچا مرزا قلندر، تصوف مِیں مرزا عبدالخالق کے تربیت یافتہ تھے، والدہ کی وفات کے بعد مرزا قلندر نے کمال شفقت سے بیدل کو اپنے آغوش و دامنِ تر بیت مِیں جگہ دی، بیدل عمر کی دسویں منزل مِیں تھے کہ مکتب مِیں اک ایسا واقعہ رونما ہوا کہ اس نے بیدل کی تعلیمی زندگی کا رخ بدل دیا، مکتب میں دو استاد کسی اختلافی مسئلے پر بحث کر ر ہے تھے، دونوں ایک دوسرے کونیچا دکھانا چاہتے تھے، بحث ہاتھا پائی کے مرحلے میں داخل ہوگئی، ساتھ ہی زبان سے مغلّظات کی بوچھار بھی ہو رہی تھی، مرزا قلندر اس وقت مکتب مِیں موجود تھے، استاد کی اخلاق باختگی کا یہ منظر دیکھ کر وہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ علوم ظاہر کے معلموں کا یہ اخلاق ہَے تو ایسی تعلیم ہرگز بیدل کے لیے سود مند نہیں ہو سکتی، مرزا قلندر نے بیدل کو ایسی بے روح تعلیم سے محفوظ رکھنے کا فیصلہ کیا، یوں بھی بیدل قرآن شریف ختم کر چکے تھے، عربی قواعد، صرف و نحو اور فارسی نظم و نثر پر انہیں قدرت حاصل ہوچکی تھی، مکتب چھڑا کر مرزا قلندر نے بیدل کی تعلیم و تربیت کا جو حکیمانہ طریقہ اختِیار کیا وہ اشاریہ غیبی محسوس ہو تا ہے، مرزا قلندر نے بیدل کو ہدایت کی کہ وہ متقدمین اور متاخرین اہل علم و ادب کا عمیق مطالعہ کریں اور مطالعے پر مبنی منتخب نظم و نثر روز انہیں سنائیں، ترک مکتب کے اس فیصلے نے بیدل کی تعلیمی و ادبی زندگی پر خوشگوار اثرات مرتب کئے، چچا کی ہدایت اور اپنے شوقِ مطالعہ سے بیدل نے رود کی، امیر خسرو، ملا جامی وغیرہ تمام اساتذہ قدیم و جدید کے کلام نظم و نثر کا مطالعہ بنظر تعمق و تامل کیا، تحصیلِ علم، مطالعۂ کتب ہی پر منحصر نہیں تھا، خوش بختی سے بیدل کو ایسے علما و صوفیا کی صحبتوں سے مستفید ہونے کا موقع ملا جو علمِ منقول و معقول کے جامع تھے، خود بیدل کی طبعِ کا یہ عالم تھا کہ جو سنتے اور پڑھتے، لوحِ ذہن پر نقش کر لیتے، بیدل سخن فہمی و سخن سنجی کی خداداد وغیر معمولی صلاحیت رکھتے تھے اس لئے بہت جلد معائب و محاسنِ سخن اور رموز شعرگوئی سے کما حقہ آگاہ ہو گئے اور بے اختِیارکلام موزوں وارد ہونے لگا، بیدل کا ابتدائی کلام کیفیت و کمیت ہر دو اعتِبار سے قابلِ لحاظ تھا، شیخ کمال اس پر اظہار پسندیدگی اور بیدل کی حوصلہ افزائی فرماتے تھے، اِس کے با وجود انہوں نے اپنے ابتدائی کلام کو محفوظ رکھنے کا اہتِمام نہیں کیا، ابتدائی کلا م سے یہ بے اعتنائی اس بات کا ثبوت ہے کہ بیدل پیدائشی طورسے بلند معیارکے حامل اور نادرۂ روز گار تھے، جو شاعر سَبکِ ہندی کو بام عروج پر پہنچانے کے لیے پیدا ہوا تھا، وہ معمولی اسالیب پرقناعت نہیں کر سکتا تھا، بیدل ابتدا میں رمزی تخلص کرتے تھے، دیبا چۂ گلستان سعدی کے قطعہ سے متاثر ہوکر انہوں نے اپنا تخلص”بیدل“ اختیار کیا، 3 صفر المظفر 1133ھ موافق 23 نومبر 1720ء کو انتقال ہوا یہ مغل حکمراں محمد شاہ کا عہد تھا، دہلی میں بیدل کی آرام گاہ ہے۔

موضوعات

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے