بے نظیر شاہ وارثی کا تعارف
تخلص : 'بے نظیر'
اصلی نام : صدیق احمد
وفات : 01 Sep 1932 | تلنگانہ, بھارت
رشتہ داروں : حاجی وارث علی (مرید)
سید محمد بے نظیر شاہ وارثی کا تخلص بے نظیرؔ تھا۔ 1863ء میں کڑا مانک پور ضلع الہ آباد میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد احسان علی قادری ایک مبلغ دین اور منبع رشد وہدایت تھے۔ انہیں مولانا شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی جیسے بزرگ کے خلیفہ ہونے کا شرف بھی حاصل تھا۔ بے نظیر شاہ بھی والد محترم کی طرح ایک صوفی اور درویش منش انسان تھے۔ مسلک پدری کو اپنا شعارِ زندگی بنایا۔ یہ سلسلۂ قادری چشتی سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ سلسلہ وارثیہ میں حاجی وارث علی شاہ سے بیعت ہوئے اور ان سےروحانی فیض حاصل کیا۔ ان کی تعلیم بالکل قدیم طرز پر ہوئی۔ انہوں نے عربی و فارسی میں بڑی فضیلت حاصل کی۔ فقہ، حدیث اور قرآن پاک وغیرہ کے درس بھی گھر پر ہی لئے۔ تصوف تو ان کی گھٹی میں پڑا تھا۔ ان کی پوری زندگی پر اس کے بہت گہرے اثرات تھے۔ علم و ادب کی حسب حوصلہ تکمیل کے بعد انہوں نے ترویج دین اور ہدایت خلق اللہ کو اپنا شیوہ زندگی بنایا اور حیدر آباد دکن چلے گئے۔ حیدرآباد میں ان کے معتقدین و مریدین کا ایک خاص حلقہ بن گیا اور پھر اس میں روز بروز اضافہ ہوتا رہا۔ موصوف نے ایک پاک و بے یار زندگی گزار کر جام وصل نوش کیا۔ بے نظیر شاہ وارثی کو شعر و شاعری سے فطری لگاؤ تھا۔ وہ اپنے جدید رنگ سے قطع نظر ایک مشاق غزل گو بھی تھے لیکن افسوس کہ ان کا بیشتر کلام کسی سفر کے دوران ضائع ہوگیا۔ غزل میں وہ وجہہ اللہ الہ آبادی اور مثنوی میں امیر مینائی سے مشورہ سخن لیتے تھے۔ بعض کتب میں یہ بھی آیا ہے کہ آپ وحید الہ آبادی سے اصلاح لیا کرتے تھے لیکن سلسلۂ فقر و درویشی سے منسلک ہونے کی وجہ سے وہ دور جدید کے ان قادر الکلام شعرا میں سے ہیں جن کا تعارف بھی شاذ و نادرہی ہوا ہے۔ حالانکہ ان کا کلام صاف ستھرا ور تصوف میں ڈوبا ہوا ہے۔ انہیں اپنے عصر کے اچھے شعرا میں شمار کیا جانا چاہئے۔ پروفیسر عبدالقادر سروری اور پروفیسر الیاس برنی نے ان کے بہت سے انتخابات اپنی انتخابی جلدوں میں شائع کر کے ان کی شاعری کو اردو داں طبقہ سے روشناس کرایا ۔ بے نظیر شاہ کی شہرت کا باعث ان کی ایک شاہکار مثنوی ہے جو 1890ء میں مکمل ہوئی ۔ یہ "کتاب مبین" اور "جواہر بے نظیر" کے نام سے دو جلدوں میں شائع ہوئی۔ یہ مثنوی خاصی طویل ہے۔ اس کی تصنیف کا مقصد مریدین کی رہنمائی کرنا ہے۔ اس میں عشق حقیقی تک پہنچنے کے مراحل کو استعارے کے پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔ بے نظیر شاہ وارثی کا اسلوب بڑاصاف و سادہ ہے۔ ان کے بیانات میں تسلسل کے ساتھ ساتھ بڑی روانی پائی جاتی ہے۔ بے نظیر شاہ کی زبان بھی شستہ و سلیس ہے۔ بے نظیر شاہ وارثی 1939ء میں رحلت کرگئے۔