فانیؔ گورکھپوری کا تعارف
تخلص : 'فانی'
اصلی نام : شاہد علی سبز پوش
پیدائش : 01 Nov 1888 | گورکھپور, اتر پردیش
وفات : 01 Jul 1952 | اتر پردیش, بھارت
رشتہ داروں : آسی غازیپوری (مرشد)
آپ کا اسم مبارک شاہد علی، لقب شہود الحق، تخلص فانی تھا، آپ عرف عام میں شاہ صاحب اور اہل ارادت و عقیدت میں حضرت صاحب اور بڑے سرکار سے جانے جاتے ہیں ،آپ مذہبا سنی ،مسلکاحنفی، مشربا قادری اور وطنا گو رکھ پوری ہیں،آپ کا نسب مبارک حضرت سید شاہ قیام الدین گورکھ پوری کے واسطے سے حضرت علی ابن ابی طالب تک پہنچتا ہے - آپ کے جداعلیٰ حضرت سید احمد مکی بادشاہ سکندر لودھی کے عہد میں نجف اشرف سے ہندوستان آئے اور سر زمین اجودھیا میں مقیم ہوئے۔چند پشتوں کے بعدان کی اولاد پرگنہ سگڑی، جو مضافات جون پور میں تھا اور اب اعظم گڑھ میں ہے ،منتقل ہوگئی ،پھر دو تین پشتوں کے بعد حضرت میر سید قیام الدین گورکھ پوری اپنے وطن سے گیارہویں صدی ہجری کے مشہور عالم و بزرگ قطب الاقطاب حضرت شیخ محمد رشید مصطفی عثمانی جون پوری (عرف دیوان جی) بانی خانقاہ رشیدیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے مرید ہو کر خلافت و اجازت حاصل کیے، اس کے بعد مرشد کامل نے رشد و ہدایت اور خدمت خلق کے فرائض انجام دینے کے لیے گورکھ پور روانہ فرمایا،جب آپ یہاں تشریف لائے تو آپ نے جہاں اپنا عصا نصب کیا اور وہیںقیام کیا اور فرمایا کہ’’فقیر کا یہی مقام ہے ‘‘جہاں آج تک آپ کی اولادقیام پذیر ہے، یہیں آپ کا وصال ہوا،مزار مبارک گورکھ پور ہی آپ کے مکان سے متصل مسجد کے صحن میںمرجع خلائق ہے-
آپ گورکھپور کے ایک دین دار ، انتہائی متمول اور با عظمت گھرانے دار فانی میں ۲۷؍ ربیع الاول ۱۳۰۷ھ/۲۰؍نومبر ۱۸۸۸ء میں پیدا ہوئے -آپ کے والد سید عابد علی سبزپوش تھے جن کا ۲۴؍ سال کی عمر میں انتقال ہوگیا۔ چچیرے دادا حضرت سید ہدایت علی قدس سرہ نے آپ کی پرورش و کفالت اور تعلیم و تربیت کی ذمے داری اپنے ذمے میں لی مگر یہ بھی ۶؍ سال کے بعد واصل بحق ہوئے،اس کے بعد حضرت سید واجد علی سبز پوش گو رکھ پور، جو آپ کے رشتے میں چچا اور پھوپھا تھے،نے آپ کی کفالت اور تعلیم کی خدمت انجام دی-
تعلیم و تربیت:جب آپ سن شعور و تمیز کو پہنچے تو حسب رواج زمانہ علوم مغربیہ کی تحصیل میں مصروف ہوئے،لیکن تکمیل سے پہلے ہی قدرت خداوندی نے آپ کی توجہ کو کسی اور امر کی طرف مبذول کر دیا،چناں چہ حضرت آسیؔ جب ایک موقع پر گورکھ پور تشریف لائے تو ا ن کے دست حق پرست پر بیعت ہوئے اور خلافت و اجازت حاصل کیے اور پھر ہمیشہ کے لیے انہی کے ہو کر رہ گئے-
آپ کی چار اولاد تھیں:سید راشد علی،سید عارف علی،سید مصطفی علی،سید ہاشم علی، یہ حضرات شریعت و طریقت دونوں سے ہم آہنگ تھے اور آپ ہی کی خدمت و صحبت اور تربیت میں رہ کر بیعت و ارادت حاصل کیے اور اجازت و خلافت کی نعمتوں سے سرفراز ہوئے-
آپ ایک زبردست اور بلند پایہ شاعر تھے، فانیؔ آپ کا تخلص بھی تھا۔ نعت، سلام، غزل، رباعی، تضمین، قطعہ ،خمسہ وغیرہ مختلف اصناف پر کہتے اور لکھتے تھے ،طبیعت میں حد درجہ سنجیدگی تھی۔ ’دیوان فانی‘ کے نام سے آپ کے اشعار کا مجموعہ ہے جو آپ ہی کے فرزند ارجمند منظور الحق حضرت سید مصطفی علی شہید آنیؔ گورکھ پوری نے ’’دیوان فانی ‘‘کے نام سے شائع کرایا ہے-
ادبا و شعراسے تعلقات: آپ نے شعر و ادب کی دنیا میں بھی نمایاں کارنامے انجام دیے ،آپ کی شاعری سے آپ کے احباب و رفقا کافی متاثر تھے ،اور آپ کی بڑی قدر کرتے تھے ،ریاض ؔخیرآبادی، اصغرؔگونڈوی، عبدالباری آسیؔ، حفیظؔ جون پوری،احسنؔ مارہروی،عزیزؔ لکھنوی ، صفدرؔ مراز پوری ، عالمؔ لکھنوی ، سیمابؔ اکبر آبادی ،وصل ؔبلگرامی ،عشرتؔ لکھنوی،اثر ؔلکھنوی ، پاس ؔعظیم آبادی ،ثاقب ؔلکھنوی ،نازش ؔبدایونی ،بیخود ؔموہانی ، بے نظیرؔ شاہ وارثی وغیرہ نامور شعرا و ادبا شامل آپ کے خاص دوستوں میں آتے ہیں جن سے آپ کے گہرے مراسم اور تعلقات تھے -
حضرت آسی کے مریدین و مرشدین میں علم وفضل اور فضائل و کمالات کے اعتبار سے ایک سے ایک لوگ تھے مگر تولیت کے لیے انتخاب آپ کا ہی ہوا۔ اول اول توآپ معذرت ہی کرتے رہے مگر حکم عدولی نہ کرسکے، چناں چہ آپ کے پیر و مرشد آسی ؔغازی پوری نے آپ کی خرقہ پوشی کر کے منصب سجادگی و تولیت کے لیے آپ کو مقرر فرمایااورآپ نے خانقاہ رشیدیہ کی سجادگی و تولیت کے فرائض احسن طریقے پر انجام دیے-
علمی ذوق کی تسکین کے لیے لائبریری کا قیام: ایک بہت بڑی لائبریری بنائی جس میں عربی، اردو، فارسی کی کتابیں دور دور سے لاکر جمع کیں۔ اس کے علاوہ بہت سے نایاب قلمی نسخے بھی تھے۔ ان سب کا مطالعہ وہ رات کو کیا کرتے تھے۔ ہر ایک شرح و حاشیہ پر اپنی رائے اور خاص بات لکھتے۔ برابر دھوپ دکھواتے اورجلدیں درست کراتے۔ اس لائبریری کو دیکھنے کے لیے لوگ دور دور سے آتے تھے-
آپ کو دعوتیں کرنے اور کھانا کھلانے کا بھی بہت شوق تھا۔ خود بھی کھانا پکوانے میں دخل رکھتے۔ اس میں جدتیں کرواتے، طرح طرح کے حلوے بنواتے اور ہر موسم میں ان کے پاس حلوئوں کا ذخیرہ رہتا۔ جو لوگ ان دعوتوں میں شریک ہوئے تھے، ان کو یاد کرتے اوراس کے قصے سناتے ۔ مریدین کا ایک سلسلہ تھا جو برابر آپ سے اپنے معاملوں کے لیے آتے، ان کے لیے بھی روز ہی کھانا پکتا اور بستر وغیرہ کا انتظام کیا جاتا تھا- ہر ایک کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتے ، لوگوں کے معاملات اور مسائل حل فرماتے ، شادیاں طے کراتے، خوب خرچ کرتے، کبھی ملکیت کی طرف راغب نہ ہوئے،مریدوں کے یہاں جانے سے گریز کرتے،جب خانقاہ میں قیام پذیر ہوتے تواپنا پورا خرچ خود اٹھاتے اور جو لوگ وہاں ملنے آتے ان کے لیے بھی جو مصارف ہوتے وہ خود کرتے۔ صرف حساب سن لیتے ،کبھی لکھا ہوا حساب نہیں مانگتے،۔ غیبت کرنے والے کو ہٹا دیتے یا پھر خود اٹھ جاتے، عبادت وریاضت لوگوں سے چھپ کرکرتے-
آپ کی چار اولاد تھیں:سید راشد علی،سید عارف علی،سید مصطفی علی،سید ہاشم علی، یہ حضرات شریعت و طریقت دونوں سے ہم آہنگ تھے اور آپ ہی کی خدمت و صحبت اور تربیت میں رہ کر بیعت و ارادت حاصل کیے اور اجازت و خلافت کی نعمتوں سے سرفراز ہوئے۔
آپ ایک زبردست اور بلند پایہ شاعر تھے۔ نعت، سلام، غزل، رباعی، تضمین، قطعہ ،خمسہ وغیرہ مختلف اصناف پر کہتے اور لکھتے تھے ،طبیعت میں سنجیدگی تھی۔ ’دیوان فانی‘ کے نام سے آپ کے اشعار کا مجموعہ ہے جو آپ ہی کے فرزند ارجمند منظور الحق حضرت سید مصطفی علی شہید آنیؔ گورکھ پوری’’دیوان فانی ‘‘کے نام سے شائع کرایا ہے-
خلفاے کرام:سید شاہ راشد علی سبز پوش شاہدی رشیدی،سید شاہ عارف علی سبزپوش شاہدی رشیدی،سید شاہ مصطفی علی سبزپوش شہید شاہدی رشیدی آنیؔ گورکھ پوری،سید ہاشم علی شاہدی رشیدی جامیؔ گورکھ پوری،شاہ حکیم لطیف الرحمن شاہدی رشیدی کٹیہاری ثم پورنوی ،سید شاہ عبد الشکور علیمی شاہدی رشیدی سادات پوری ،سید شاہ ایوب ابدالی نیر اسلام پوری ،شاہ سعید شاہدی رشیدی مہواری سیوانی، شاہ غلام محمد یٰسین شاہدی رشیدی پورنوی ،شاہ غلام عبد القادر شاہدی رشیدی پورنوی-آپ نے اپنے صاحبزادہ ٔ گرامی حضرت مصطفی علی شہید سے فرمایا کہ سامان باندھو! اب تمہیں خانقاہ رشیدیہ اور رشیدآباد چلنا ہے،آپ وہاں پہنچے اورلوگوںکو ہدایتیں کرنے لگے ،دوران قیام ہی قلب بے چین ہوا اور ۶؍ذی قعدہ ۱۳۷۱ھ مطابق ۲۷؍جولائی ۱۹۵۲ء کو مالک حقیقی سے جاملے، آپ کا مزار شریف رشید آباد شریف ضلع جون پور میں حضرت شاہ سراج الدین رشیدی کے مزار سے متصل پورب جانب ہے-