امداد علی علوی کا تعارف
امداد علی علوی کی پیدائش 17 جمادی الاول 1255ھ مطابق 29 جولائی 1839ء کو قصبہ تھانہ بھون ضلع مظفرنگر میں ہوئی، 1869ء میں آپ حیدرآباد چلے آئے اور 1874ء کو حضرت مرزا سردار بیگ سے بیعت ہوگئے اور 1877ء کو اجازت بھی حاصل ہوگئی, حیدرآباد میں آپ کا قیام زیادہ تر بلدہ فرخندہ بنیاد میں ہوتا تھا، آپ کے مریدین و معتقدین حیدرآباد اور مضافات حیدرآباد میں بکثرت پائے جاتے ہیں، امداد علی علوی کے والد محترم پیر جی میر نجات علی علوی (متوفیٰ 1856ء) حضرت مولیٰ علی کے فرزند محمد بن حنفیہ کی اولاد سے ہیں اس لئے علوی کہلائے، اسی سلسلے کے ایک بزرگ شاہ ابو سعید رازی خراسان سے ہندوستان تشریف لائے جن کی چھٹی پشت میں شاہ عبدالرزاق شاہ العالمین جھنجھانوی بڑے اللہ والے گزرے ہیں جن کا وصال 945ھ میں ہوا، مرقد قصبہ جھنجھانہ میں نیلے روضہ کے نام سے اب بھی موجود ہے، امداد علی علوی کی پیشانی پر بچپن ہی سے آثار بزرگی ظاہر ہونے لگے تھے، جو کوئی آپ کو دیکھتا بے اختیار سوچتا ضرور یہ بزرگ زادہ عارف و ہادی بنے گا، ایک مجذوب کی نگاہ اثر نےامداد علی علوی کو علوم ظاہری و باطنی سے آراستہ و پیراستہ کردیا، اس زمانہ کے دستور کے مطابق پہلے قرآن پاک ختم کیا پھر والد محترم سےفارسی پڑھی اور مادری زبان اردو میں قابلیت پیدا کی، اس درمیان تصوف کی کتب بھی آپ کے مطالعہ میں شامل رہی، آپ کی فہم و ذکا اور طبع رسا نے رغبت فرمائی اور شعر گوئی کا آغاز ہوا اور ذوق دہلوی کے تلمیذ منشی احسن اللہ خاں مخیر میرٹھی کو اپنا کلام دکھلایا جنہوں نے تھوڑی بہت اصلاح دے کر فرمایا کہ "یہ سب عمدہ کلام ہے" ابتدا میں علی تخلص کیا مگر استاد سخن مخیر کے مشورہ پر عُلوی اختیار فرمایا جو مقبول عام اور زبان زد خاص و عام ہے۔ آپ کہتے ہیں۔
یہ ہے مخیرکا فیض علوی زبان اردو جو بولتا ہوں
وگرنا تھانہ بھون کا ہوں میں، ضلع مظفر نگر کو دیکھو
آپ کا انتقال 11 محرم الحرام 1319ھ موافق 1 مئی 1901ء کو ہوا اور اپنے مرشد آستانہ حضرت سردار بیگ حیدرآباد کے صحن میں دفن ہوئے۔