تمام
ای-کتاب4
تعارف
کلام1
بلاگ9
فارسی کلام9
فارسی صوفی شاعری1
صوفیوں کے مکتوب7
صوفی اقوال150
ملفوظ5
قطعہ1
خواجہ غریب نواز کا تعارف
تخلص : 'معین'
اصلی نام : حسن
پیدائش : 01 Feb 1142 | ہرات
وفات : 01 Mar 1236 | راجستھان, بھارت
رشتہ داروں : قاضی حمیدالدین ناگوری (مرشد), قطب الدین بختیار کاکی (مرید)
خواجہ معین الدین چشتی برصغیر کے معروف صوفی گزرے ہیں۔ آپ کے والد کا سلسلہ نسب حضرت محمد پاک کے چھوٹے نواسے امام حسین سے جا ملتا ہے۔ والد کا نام غیاث الدین حسن تھا۔ سیستان کے علاقہ سجز سے ان کی گہری وابستگی تھی۔ ان کے والد اپنے عہد کے ایک عالم، فاضل اور صاحب ثروت انسان تھے۔ ان کی والدہ کا تعلق بھی خاندان سادات سے تھا۔ ان کا سلسہ نسب بھی حضرت محمد پاک کے بڑے نواسے امام حسن سے ملتا ہے۔ ان کی والدہ کا نام ام الورع تھا وہ بی بی ماہ نور کے نام سے موسوم ہیں۔ خواجہ معین الدین چشتی کا خاندان دینی اور مذہبی تھا۔ والد کے اثر نے ان کو بچپن سے ہی دینی کاموں کی طرف راغب کیا۔ ان کے عہد میں نیشاپور ایک علمی اور ادبی مرکز تصور کیا جاتا تھا۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم نیشاپور میں حاصل کی۔ خواجہ بزرگ ابھی چودہ برس کے ہی تھے کہ والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ کہا جاتا ہے کہ والد کے وصال کے بعد ان کو والد کی ملکیت میں سے ایک انگور کا باغ اور ایک پن چکی ملی۔ انہوں نے زراعت کرنا شروع کر دیا اور انگور کے باغ کی باغبانی کرنے لگے اور اسی کو اپنا ذریعہ معاش بنایا۔ حضرت ابراہیم قندوزی اس عہد کےایک ولی اللہ تھے۔ ان کے مشورہ پر خواجہ بزرگ نے اپنا سارا ورثہ فروخت کر دیا اور تعلیم کی تلاش میں لگ گئے۔ اس عہد میں سمرقند اور بخارا علمی مرکز ہوا کرتے تھے۔ اعلیٰ تعلیم کی غرض سے وہ سمرقند تشریف لے گئے۔ وہاں ایک مدرسہ میں داخل ہو کر قرآن کی تعلیم شروع کر دی۔ مدرسہ میں مولانا اشرف الدین جیسے جید عالم دین سے علم دین حاصل کیا۔ پھر بخارا کا رخ کیا اور مولانا شیخ حسام الدین بخاری کی خدمت میں زانوئے تلمذ تہہ کیا اور ان سے ہی تفسیر قرآن، حدیث، فقہ اور علوم معقولات و منقولات حاصل کی۔ دستار فضیلت بھی مولانا حسام الدین بخاری سے حاصل کی، تقریباً پانچ سال تک بخارا میں مقیم رہے۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد نیشاپور کے قریب قصبہ ہارون گئے۔ وہاں خواجہ عثمان ہارونی کی بارگاہ میں حاضر ہوئے۔ خواجہ عثمان ہارونی ایک عظیم صوفی تھے۔ ان کا تعلق سلسلۂ چشتیہ سے تھا۔ خواجہ عثمان ہارونی نے خواجہ بزرگ کی لیاقت، استعداد اور حوصلہ کو دیکھ کر انہیں اپنے حلقۂ ارادت میں شامل کرلیا۔ خواجہ بزرگ سلوک و عرفان کی منزل طے کرنے اور خواجہ عثمان ہارونی کے فیضان سے مستفیض ہو نے کے بعد اپنے وطن تشریف لے گئے پھر وہاں سے بیت اللہ اور روضۂ اطہر کی زیارت کے لئے نکل پڑے۔ وہاں پر انہوں نے اپنے باطن کی آواز سنی اور ہندوستان آنے کا فیصلہ کیا۔ خواجہ بزرگ نے زندگی کا کچھ حصہ سیر و سیاحت میں بھی گزارا۔ انہوں نے خراسان، سمرقند، بغداد، عراق، عرب، شام، بصرہ، دمشق، اصفہان، ہمدان، تبریز اور کرمان وغیرہ کا بھی سفر کیا۔ وہ کچھ مواقع پر اپنے مرشد کے ساتھ شریک سفر رہے۔ سفر ہندوستان کے درمیان وہ بہت سارے اکابرین اور اولیائے کرام کی صحبت سے فیضیاب ہوتے ہوئے لاہور پہنچے۔ یہاں انہوں نے حضرت سید علی بن عثمان ہجویری مشہور بہ داتا گنج بخش کے مزار پر حاضری دی اور اپنے ارادت مندوں کے ہمراہ اسی مزار کے سامنے چلہ کیا جہاں پر انہوں نے چلہ کیا تھا وہ جگہ آج بھی حضرت داتا گنج بخش کے مزار کے سامنے ایک حجرہ کی شکل میں موجود ہے۔ چلہ پورا کرنے کے بعد انہوں نے وہاں چند روز قیام کیا۔ اس کے بعد اجمیر کی طرف کوچ کیا۔ اجمیر پہنچنے تک لوگوں نے راستے میں ان کے بہت سارے کرامات کا مشاہدہ کیا۔ خواجہ بزرگ نے ریاضت و عبادت کی مشغولیت کی بنا پر جوانی میں شادی نہیں کی۔ ایک اچھی خاصی عمر گزر جانے کے بعد صرف اتباع رسول کے لئے انہوں نے دو شادیاں کیں۔ ان کی ایک زوجہ امتہ اللہ تھیں۔ ان کے بطن سے ایک بیٹی بی بی حافظہ جمال پیدا ہوئیں۔ دوسری زوجہ عصمت اللہ تھیں۔ ان سے تین بیٹے خواجہ فخرالدین ابوالخیر، خواجہ حسام الدین ابو صالح اور خواجہ ضیاؤالدین ابو سعید پیدا ہوئے۔ انہوں نے 94 سال کی عمر میں 1235ء میں اجمیر میں انتقال کیا۔ کہا جاتا ہے کہ خواجہ معین الدین چشتی صاحب تصانیف کثیرہ تھے۔ خواجہ بزرگ سے منسوب چند کتب کافی مشہور ہیں جیسے انیس الارواح، گنج الاسرار، حدیث المعارف، رسالہ وجودیہ، رسالہ آفاق نفس، رسالہ تصوف الہامات، کشف الاسرار معروف بہ معراج الانوار اور مکتوبات وغیرہ۔