کرشن چندر کا تعارف
اصلی نام : کرشن چندر
پیدائش : 23 Nov 1914
وفات : 08 Mar 1977
اک نئے اسکول کا بانی افسانہ نگار
''سچْی بات یہ ہے کہ کرشن چند کی نثر پر مجھے رشک آتا ہے۔ وہ بے ایمان، شاعر ہےجو افسانہ نگار کا روپ دھار کے آتا ہے اور بڑی بڑی محفلوں اور مشاعروں میں ہم سب ترقی پسند شاعروں کو شرمندہ کر کے چلا جاتا ہے۔ وہ اپنے ایک ایک جملے اور فقرے پر غزل کے اشعار کی طرح داد لیتا ہے اور میں دل ہی دل میں خوش ہوتا ہوں کہ اچھا ہوا اس ظالم کو مصرع موزوں کرنے کا سلیقہ نہ آیا ورنہ کسی شاعر کو پنپنے نہ دیتا''۔
علی سردار جعفری
کرشن چند اردو فکشن کی وہ قد اور شخصیت ہیں جن کے فن میں تنوع، رنگارنگی،شادابی،رومانیت،حقیقت،بگغاوت،شوخی اور طنز سبھی کچھ شامل ہے جبکہ رومانی حقیقت پسندی ان کا طرہء امتیاز ہے۔کرشن چندر نے اپنے افسانوں اور ناولوں کے ذریعےترقی پسند ادب کی قیادت کی اور اسے عالمی سطح تک پہنچا دیا۔انھون نے درجنوں ناول اور 500 سے زائد افسانے لکھے ان کی تصانیف کا ترجمہ دنیا کی مختلف زبانوں میں ہو چکا ہے۔ کرشن چندر کے پاس اک شاعر کا دل اور اک مصور کا قلم ہے،ان کے موضوعات ہندوستانی زندگی اور اس کے مسائل کے گرد گھومتے ہین ۔اردو افسانوں مین ہیئت کے لحاظ سے کرشن چندر نے نت نئے تجربات کئے ہین انھون نے افسانہ اور اسکیچ کے امتزاج سے اردو افسانہ نگاری مین اک نئی طرح ڈالی۔اور اسے اپنے منفرد اسلوب کے ذریعے افسانہ نگاری میں اک نئے اسکول کی داغ بیل ڈالی۔افسانوں اور ناولوں کے علاوہ انھون نے خاکے،انشائے، تبصرے اور رپورتاژ بھی لکھے جن سب پر ان کی مخصوس چھاپ موجود ہے۔
کرشن چندر 23 نومبر 1914 کو راجستھان کے شہر بھرت پور میں پیدا ہوئے جہان انکے والد گوری شنکرچوپڑا میڈیکل افسر ھے۔بعد میں انھون نے اس وقت کی ریاست پونچھ مین ملازمت کر لی تھی۔کرشن چند کا بچپن وہیں گزارا۔کرشن چندر نے تحصیل مہندڑ گڑھ میں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ اردو انھوں نے پانچویں جماعت سے پڑھنی شروع کی اور آٹھویں جماعت میں اختیاری مضمون فارسی لے لیا۔فارسی کے استاد بلاقی رام نندہ ان کی بہت پٹائی کرتے تھے۔کرشن چند نے ان پر اک مضمون "مسٹر بلیکی" لکھ کر دیوان سنگھ مفتوں کے اخبار "ریاست' میں بھیج دیا جو شائع بھی ہو گیا۔اس مضمون کی علاقہ میں بہت شہرت ہوئی اور لوگوں نے اسے مزے لے لے کر پڑھا لیکن والد سے ڈانٹ ملی۔کرشن چندر نے میٹرک کا امتحان سیکنڈ ڈویزن میں وکٹوریہ ہائی اسکول سے پاس کیا۔جس کے بعد انھوں نے لاہور کے فارمن کرسچین کالج میں داخلہ لے لیا ۔اسی زمانہ میں ان کی ملاقاتت بھگت سنگھ کے ساتھیوں سے ہوئی اور وہ انقلابی سرگرمیوں میں حصہ لینے لگے۔انھیں گرفتار کر کے دو ماہ لاہور کے قلعہ میں نظر بند بھی رکھا گیا۔ایف اے میں وہ فیل ہو گئے تو شرم کی وجہ سے گھر سے بھاگ کر کلکتہ چلے گئے۔لیکن جب معلوم ہوا کہ ان کی والدہ ان کے لاپتہ ہو جانے سے بیمار ہو گئی ہیں تو واپس آ گئے۔اس کے بعد انھوں نے سنجیدگی سے تعلیم جاری رکھی اور انگریزی میں ایم اے اور پھر ایل ایل بی کیا۔ ایل ایل بی انھوں نے والدین کے دباؤ میں کیا تھا اور ان کا کوئی ارادہ وکالت کرنے کا نہیں تھا ۔ان کی دلچسپی ادب میں تھی اور انھون نے مختلف رسالوں کے لئے لکھنا شروع کر دیا تھا اور ادبی حلقوں میں ان کی شناخت بننے لگی تھی۔اس زمانے میں ان کی کہانیوں کے کئی مجموعے،"خیال"،"نظارے " اور' نغمے کی موت" شائع ہو چکے تھے۔جن کو سراہا گیا تھا۔ان کا پہلا ناول "شکست"1943 میں منظر عام پر آیا۔
کرشن چندر شروع سے ہی ترقی پسند تحریک سے وابستہ ہو گئے تھے اور 1938 میں کلکتہ میں منعقد کی گئی کل ہند انجمن ترقی پسند مصنفین کی کانفرنس میں انھوں نے صوبہ پنجاب کے نمائندہ کی حیثیت سے شرکت کی تھی۔یہیں ان کا وعارف سجّاد ظہیر اور پروفیسر احمد علی وغیرہ سے ہوا۔اور انھین انجمن ترقی پسند مصنفین صوبہ پنجاب کا سکریٹری مقرر کر دیا گیا۔1939 میں احمد شاہ بخاری (پطرس) نے، ۔جو آل انڈیا ریڈیو کے ڈپی ڈائرکٹر تھے،انھین آل انڈیا ریڈیو لاہور میں پروگرام اسسٹنٹ کی ملازمت دے دی۔انھون نے تین سال تک لاہور ،دہلی اور لکھنو مین بطور پروگرام اسسٹنت کام کیا ۔اس وقت دہلی اکے ریڈیو اسٹیشن پر سعادت حسن منٹو بھی تھے جنھون نے ان کو شراب کی لت لگائی۔اسی زمنانہ مین ان کی مان نے ان کی شادی ودیاوتی سے کر دی۔ان کی بیوی معمولی شکل و صورت کی اور تند خو تھین جن کے ساتھ وہ خوش نہین تھے۔انھون نے بہرھال ان کے تین بچون کو جنم دیا۔
کرشن چندر ریڈیو کی ملازمت سے مطمئن نہین تھے ۔ اتفاق سے اسی زمانہ مین پونے کی شالیمار فلم کمپنی کے پروڈیوسر/ڈائرکٹر زیڈ احمد نے ان کا اک افسانہ پڑھا اور انھین ٹیلیفون کر کےاپنی فلم کمپنی مین مکالمے لکھنے کی دعوت دی۔کرشن چند نے ریڈیو کی ملازمت چھوڑ دی اور پونے روانہ ہو گئے۔پونے کا زمانہ کرشن چندر کی زندگی کا یادگار اور رنگین زمانہ تھا۔یہان انھون نے ہر طرح کے عیش کئے ۔وہ خوبصورت ہیرو ہیروئنون سے ملے اور ان کا قرب حاصل کیا۔تخلیقی لحاظ سے بھی یہ ان کا اچھا دور تھا جس مین انھوں نے 'ان داتا' اور'" موبی جیسی کہانیان لکھین۔ پونے مین انھون نے کئی عشق کئے۔ان کی محبوباون مین اک لڑکی ثمینہ تھی جو زیادہ حسین نہین لیکن بلا کی ذہین اور فقرہ باز تھی۔کرشن چند اس پر فریفتہ ہو گئے یہان تک کہ وہ ان کی کمزوری بن گئی۔بعد مین اس لڑکی کو انھوں نے اپنی اک فلم مین سائڈ ہیروئن کا رول بھی دیا۔ان کی دوسری محبت اس دور کی مشہور شاعرہ شاہدہ نکہت سے ہوئی جو اپنے مسحور کن ترنم اور حسن و جمال کے سبب مشاعرون کی جان ہوا کرتی تھی۔لیکن اس کے چاہنے والے بہت تھے۔کرشن چندر کو یہ بات پسند نہین تھی۔نتیجہ یہ ہوا کہ یہ عشق چھہ ماہ میں دم توڑ گیا۔ اس کے بعد وہ مشہور ادیب اور علی گڑھ یونیورسٹی کے پروفیسر رشید احمد صدیقی کی صاحبزادی پر مر مٹے جو شادی شدہ اور ایک بچہ کی مان تھین۔ان سے شادی مین بہت مشکلات حائل تھیں لیکن سلمی بھی ان کے عشق مین گرفتار ہو گئین اور شوہر سے طلاق لے کر کرشن چندر کی شریک حیات۔ بن گئیں سلمی کے ساتھ ان کی زندگی بہت خوشگوار گزری۔
کرشن چندر 1946 مین پونے سے بمبئی چلے گئے جہان ان کو بمبئی ٹاکیز مین ڈیرھ ہزار روپے ماہوار پر ملازمت مل گئی۔اس کمپنی مین ایک سال کام کرنے کے بعد وہ ملازمت ترک کرکے فلمون کے پروڈیوسر اور ڈائرکٹر بن گئے۔ان کی پہلی فلم 'سراے کے باہر" ان کے ایک ریڈیائی ڈرامے پر مبنی تھی۔اس مین ان کے بھائی مہندر ناتھ ہیرو تھے۔فلم بری طرح ناکام ہوئی اس کے بعد انھون نے فلم راکھ بنائی جو ڈمیں ہی بند رہ گئ اور کبھی ریلیز نہین ہوئی۔فلموں کی ناکامی کے نتیجہ مین کرشن چندر عرش سے فرش پر ا گئے۔سر پر بھاری قرض کا بوجھ تھا جس کی ادائگی کی کوئی صورت نظر نہین ا رہی تھی۔انھوں نے اپنی کاریں بیچ دیں، نوکرون کو ہٹا دیا اور بمبئی مین قدم جماے رکھنے کے لئے نئے سرے سے جد و جہد شروع کی۔کرشن چندر نے تقریبا دو درجن فلمون کے لئے کہانی،منظر نامے یا مکالمے لکھے ان مین کچھ فلمیں چلیں بھی لیکن بطور فلم رائٹر وہ فلموں میں کوئی بلند مقام نہین حاصل کر سکے۔
1966 مین کرشن چندر کو سوویت لینڈ نہرو ایوارڈ سے نوازا گیا جس کے ساتھ پندرہ دن کے لئے سوویت یونین کے دورے کی دعوت بھی تھی۔ کرشن چندر نے سلمی صدیقی کے ساتھ روس کا دورہ کیا جہان ان کا پر جوش خیرمقدم کیا گیا۔روسی نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ترجموں کے ذریعہ ان کی تحریرون سے واقف اور ان کے مداح تھے۔ 1973 مین فلمز ڈویزن نے ان کی قد آور اور عالمگیر شخصیت کے پیش نظر ان کی زندگی پر اک ڈاکیومنٹری فلم بنانے کا فیصلہ کیا اور یہ کام ان کے بھائی مہندر ناتھ کے سپرد کیا گیا۔فلم کی شوٹنگ بمبئی پونے اور کشمیر مین ہوئی ۔1969 مین ان کو پدم بھوشن کے خطاب سے نوازا گیا۔31 مئی 2017 کو ان کی یاد مین محکمہ ء ڈاک و تار نے دس روپے کا ڈاک ٹکٹ جاری کیا۔ان کو ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ کبھی نہیں ملا۔
کرشن چندر دل کے مریض تھے۔ان کو 1967،1969 اور 1976 مین دل کے دورے پڑے تھے لیکن بچ گئے تھے۔5 مارچ 1977 کو ان کو ایک بار پھر دل کا دورہ پرا اور وہ 8 مارچ کو چل بسے۔
قارئین کی تعداد کے اعتبار سے کرشن چندر سے زیادہ کامیاب افسانہ نگار کوئی نہین۔ان کے افسانوں مین رومان اور حقیقت کا جو امتزاج ملتا ہے وہ ہندوستانیوں کی فطرت کے عین مطابق ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ہندوستانی فطرتا تخئیل پرست اور رومانی ہین لیکن وقت اور حالات کے تقاضوں نے انھیں واقعیت پسند بھی بنا دیا ہے ۔کرشن چندر کے افسانے ان دونون مطالبات کو پورا کرتے ہین۔وہ اپنی انفرادیت کے ساتھ اجتماعیت کو بھی فراموش نہین کرتے ۔وہ جب اپنی بات کرتے ہین تو محسوس ہوتا ہے کہ اس کے پردہ میں سارے معاشرے کی بات کر رہے ہین۔ان کی اپ بیتی مین جگ بیتی کا انداز ہے اور یہی ان کی کامیابی کا راز ہے۔کرشن چند کو جنت اور جہنم کو یکجا کرنے کا ہنر آتا ہے ۔وہ روشن دماغ اور کشادہ دل ہیں اور انھون نے اپنے فن کو بھی ان ہی خوبیوں سے مالامال کر دیا ہے۔