مرزا مظہر جان جاناں کا تعارف
مرزا مظہر جان جاناں سادات علوی میں سے ہیں۔ آپ کا سلسلہ نسب محمد بن حنفیہ کی وساطت سے حضرت مولیٰ علی سے جا ملتا ہے۔ آپ کے والد مرزا جان شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر کے دربار میں صاحبِ منصب تھے۔ 11 رمضان 1111ھ یا 1113ھ موافق 1699ء کو ملوا میں پیدا ہوئے۔ جب مرزا مظہر کی پیدائش کی خبر شہنشاہ عالمگیر کو ملی تو انہوں نے کہا کہ بیٹا باپ کی جان ہوتا ہے چونکہ باپ کا نام مرزا جان ہے، اس لئےہم نے ان کے بیٹے کا نام جانِ جان رکھا لیکن عوام میں جانِ جاناں مشہور ہوا۔ آپ کے والد مرزا جان جو سلسلہ قادریہ میں شاہ عبد الرحمٰن قادری کے مرید تھے، آپ کی پیدائش کے بعد دنیا سے کنارہ کش ہو گئے اور باقی عمر فقر و قناعت میں بسر کی۔ آپ کے والد بزرگوار مرزا جان نے آپ کی تعلیم کے لئے نہایت اہتمام فرمایا۔ ابتدا میں اپنے والد ماجد سے پڑھے۔ قرآن پاک مع تجوید و قرأت قاری عبد الرحیم اور علم حدیث و تفسیر حاجی محمد افضل سیالکوٹی شاگرد شیخ عبد اللہ بن سالم مکی سے پڑھی۔ ان علوم کے علاوہ مرزا مظہر کو دیگر فنون میں بھی کافی مہارت حاصل تھی۔ بالخصوص فن سپہ گری میں آپ کو اس قدر مہارت حاصل تھی کہ فرماتے تھے کہ اگر بیس آدمی تلواریں کھینچ کر مجھ پر حملہ کریں اور میرے پاس ہاتھ میں صرف ایک لاٹھی ہو تو ایک آدمی بھی مجھے زخم نہیں پہنچا سکتا۔ مرزا مظہر جان جاناں کو سید نور محمد بدایونی سے کم عمری میں ہی لگاؤ ہوگیا تھا، انہیں سے بیعت ہوئے اور اجازت بھی حاصل ہوئی۔ سید نور محمد بدایونی کے پیر حافظ محمد حسن اور ان کے پیر یوسف الدین سرہندی اور ان کے پیر خواجہ محمد معصوم مجددی اور ان کے پیر و مرشد مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی ہوئے۔ مرزا مظہر جان جاناں کی ذات مختلف حیثیتوں سے بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ وہ صرف اصلاح پسند صوفی صافی ہی نہ تھے بلکہ عشق حقیقی کے طلسمات کے مسرور سالک ، فارسی انشا و شاعری میں بلند مقام کے مالک اور اردو زبان کے ایک مصلح اور مجدد بھی تھے۔ اردو کی صوفیانہ شاعری میں چند نام اہمیت کے حامل ہیں جن میں خواجہ میر درد دہلوی، خواجہ رکن الدین عشق عظیم آبادی اور مرزا مظہر جان جاناں وغیرہ سرفہرست ہیں جو جمالیات ذوق و شوق کی شاعری کرتے ہیں اور زبان بھی نہایت آسان استعمال کرتے ہیں جو ہر کسی کی سمجھ میں آجا ئے۔ مرزا مظہر جان جاناں کو ضعیفی کی عمر میں آدھی رات کچھ غنڈوں نے 7 محرم الحرام 1195ھ موافق 1781ء کو طپنچہ کا زخم لگایا اور 10 محرم الحرام کو واصل باللہ ہوئے اور چتلی قبر کے پاس اپنی خانقاہ میں مدفون ہوئے۔