شیدا وارثی کا تعارف
مرزا ابراہیم بیگ نام اور شیدا تخلص تھا۔ آپ کے والد کا نام شیدا بیگ تھا۔ آپ کی پیدائش 1864ء کو لکھنؤ میں ایک عزت یافتہ خاندان میں ہوئی تھی۔ آپ کےآباواجداد فتح پور کے رہنے والے تھے مگر آپ کے بزرگ اپنے وطن مالوہ کو خیرباد کہہ کر مع اہل وعیال دیویٰ ضلع بارہ بنکی چلے آٗئے۔ مرزا ابراہیم بیگ کے انتقال کے بعد ان کی اہلیہ دیویٰ میں ہی مقیم رہیں۔ مرزا ابراہیم بیگ شیدا وارثی حاجی وارث علی شاہ کے جاں نثار مریدوں میں سے تھے۔ زندگی بالکل فقیرانہ تھی۔ ہمیشہ سفید کُرتا پائے جامہ اور ٹوپی پہنا کرتے تھے۔ زندگی کا بیشتر حصہ حاجی وارث علی شاہ کی صحبت میں ہی گذرا اور انہیں کی خدمت کو اپنا فرض اولین سمجھا۔ وصیت کے مطابق آپ کی رحلت کے بعد آپ کی کُل جائداد حاجی وارث علی شاہ مسولیم ٹرسٹ دیویٰ کو وقف کردی گئی۔ آپ کا ذاتی مکان اور ذاتی کتب خانہ بھی دیویٰ میں ہی موجود ہے اور اس کے صحن میں شیدا وارثی کا مزار ہے۔ شیدا وارثی صرف ایک فقیر ہی نہیں تھے بلکہ علم و ادب کی دنیا میں ان کا ایک خاص مقام تھا۔ ان کی شاعری میں محبت والفت کا تذکرہ ملتا ہے۔ انہوں نے شاعری کی تمام اصناف میں طبع آزمائی کی ہے مگر غزلیں زیادہ کہی ہیں۔ نثری تصانیف میں خلاصۃ السلوک، بلوغ المرام، حیات وارث اور منہاج العشقیہ نہایت اہم ہیں۔ اس کے علاوہ شعری تصانیف میں نالۂ شیدا، افضال وارث، فیض وارث اور واسوخت شیدا کافی مشہورہیں۔ شیدا وارثی نے ان تمام شعری تخلیقات میں عشق حقیقی اور عشق مجازی کے محبت کی خوبیوں کو پیش کیا ہے اور دونوں میں فرق بھی ظاہر کیا ہے۔ عشق مجازی کو ہی عشق حقیقی بنا کر اس راستے پر گامزن رہنے کی تعلیم دی ہے۔ وارثی شعرا میں ان کی گراں قدر خدمات رہتی دنیا یاد رکھی جائیں گی۔ حیات وارث کے نام سے سیرت وارثی پر عمدہ کتاب لکھی۔ حقہ کے بڑے شوقین تھے۔ وصال بھی دیویٰ میں ہوا اور شاہ ولایت حضرت منعم شاہ قادری سہروردی کے صحن میں مدفن بنا۔ آپ فارسی اور اردو کے شاعر تھے۔