رامپور رضا لائبریری، رام پور کا تعارف
نوابین رام پور نے اپنی کوششوں سے رامپور رضا لائبریری کی صورت میں ملک و قوم کو علمی ورثے کا ایک قیمتی تحفہ عطا کیا ہے، نواب فیض اللہ خان نے اٹھارویں صدی کے آخری عشروں میں اپنے قدیم مخطوطات اور اسلامی خطاطی کے چھوٹے نمونوں کے ذاتی مجموعہ سے اس لائبریری کو قائم کیا تھا۔ چونکہ تمام نواب فنون لطیفہ اور اہل علم کے قدردان تھے، اس لئے اس لائبریری میں روز بروز اضافہ ہوتا رہا۔ اس طرح یہ ایشیاء کی سب سے بڑی لائبریری قرار پائی۔ یہ واحد کتب خانہ ہے جہاں اونٹ کے چمڑے پر لکھا ہوا کوفی رسم الخط میں قرآن کریم کا ایک نسخہ ہے جو حضرت علی سے منسوب ہے۔ یہ لائبریری اتنی اہمیت اور معنویت کی حامل ہے کہ اس کے نوادرات مخطوطات کے حوالے سے مشاہیر نے بہت سارے مضامین لکھے ہیں۔ اس لائبریری میں 20 ہزار مخطوتے، 3 ہزار اسلامی خطاطی کے نایاب نمونے اور 80 ہزار مطبوعہ کتابیں ہیں جن میں اردو کے علاوہ سنسکرت، ترکی، تمل اور ہندی کتابیں بھی شامل ہیں اور ایسے نوادرات بھی ہیں جن کی نظیر دنیا کے کتب خانوں میں نہیں ملتی۔ رامپور رضا لائبریری کی قیمتی کتابیں ریختہ نے اسکین کرکے اپنی ڈیجیٹل لائبریری پر پیش کر دی ہیں، جہاں "جواہر فریدی، "آئینہ فرنگ، "اعمال نامہ روس، "اقوام الہند، "بوستان معرفت، "درج گوہر، "دیوان ولی، اس کے علاوہ علوم و فنون کی ہزاروں کتابیں یہاں استفادہ کے لئے موجود ہیں۔ اس کتب خانہ میں اردو رسائل کی بھی بہت بڑی تعداد ہے، جن میں اردو کے معتبر اور قدیم سے قدیم رسائل موجود ہیں، جیسے "زمانہ، "زندگی، "سب رس، "ساقی، دہلی، "سریتا، "سوغات، "سویرا، "سہیلی امرتسر، "شاعر ممبئی، "شاہکار الہ آباد، "شب خون، "شباب اردو، "شبستان، "شمع، "صبا، "طبیب، "عصمت، "علی گڑھ میگزین، "فاران کراچی، 'ماہ نو، 'ادیب، "اردو ڈائجسٹ، "افکار کراچی، اور ان کے علاوہ یہاں اور بھی ہزاروں اردو رسائل و جرائد سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔