عبد الوهاب شعرانى کے صوفی اقوال

صوفی بھی خدا کے ساتھ قربت کے خواہش مند ہوتے ہیں لیکن بندہ اس کی قربت تک اس وقت پہنچتا ہے جب لوگ اسے نظرانداز کرتے ہیں اور اس کی قدر نہیں کرتے، اس طرح بندے کو روحانی بلندیوں کے اوقات میں جو سکون اور تسلی ملتی ہے، اس سے دھوکا نہیں کھانا چاہیے، قربت صرف اور صرف الٰہی کرم کا نتیجہ ہوتی ہے جو روح کو حاصل ہوتا ہے۔

لیکن یہ صرف صوفیانہ راہ کا آغاز ہے، سالک کے لیے اس کے بعد وہ اسی کرم کے مطابق بلند ہوتا ہے جو اسے عطا کیا گیا ہے اور جو حصہ اس کے لیے مقدر ہے، اس راہ میں کئی مراحل اور حالتیں ہیں جنہیں وہ مسلسل عبور کرتا ہے، یہاں تک کہ وہ اپنے تمام افکار اور اپنی ذات سے گزر کر اپنے رب کی عظمت کے مراقبے میں محو ہو جاتا ہے۔

میں نے خود اس حالت کا تجربہ کیا ہے، شام کی نماز سے لے کر رات کے پہلے تہائی حصے تک اور میں خدا کی تخلیق کردہ چیزوں کو سن رہا تھا جو اسے حمد کر رہی تھیں اور اپنی آوازیں بلند کر رہی تھیں، یہاں تک کہ مجھے اپنی عقل کا خوف محسوس ہونے لگا پھر خدا کی رحمت سے یہ پردہ مجھ پر پڑا، جو میں ایک فضل کے طور پر پہچانتا ہوں۔

معرفت، صوفیہ کی پہچان ہے لیکن معرفتِ الٰہی کا تعلق اس کی ذاتی صفات اور ان صفات سے ہے جو اس کے افعال میں ظاہر ہوتی ہیں، اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ اسے صفاتِ ذات جو کہ ازلی و ابدی ہیں کا مکمل علم حاصل ہے، تو اس کا دعویٰ باطل ہے، کیوں کہ ایسا دعویٰ خدا کو عقلِ محدود کے دائرے میں مقید کرتا ہے، جب کہ اس کی ذات لامحدود اور غیر متناہی ہے۔

بندۂ خدا اپنے رب کی خدمت کے مقام تک عبادات و ریاضات کے ذریعے پہنچتا ہے لیکن جب تک وہ اپنی عبادت کو سوچتا رہے، وہ اس مقام پر نہیں پہنچتا، جب وہ اپنی خدمت کو بھول کر ہر لمحہ اپنے رب میں محو ہو جائے اور ہر وقت اس کا مراقبہ کرے، تب ہی وہ حقیقی بندگی کے مرتبے پر فائز ہوتا ہے۔

سمندر کی تہہ میں مچھلی کہتی ہے کہ ’’پاک ہے بادشاہ، سب سے مقدس، دولت، قوت اور طاقت کا رب‘‘ اور اسی طرح تمام جانور اور پودے بھی اسی کی تسبیح کرتے ہیں اور ان سب کی حمد و ثنا اسی کے لیے ہے۔

جس مقام پر متکلم اپنی راہ ختم کرتا ہے، وہی مقام درویش کی راہ کا آغاز ہوتا ہے، کیوں کہ متکلم کا اعلیٰ ترین مرتبہ یہ ہے کہ وہ اپنے علم اور عمل میں خلوص رکھے، سب کچھ خدا کے لیے کرے اور اس کے عوض کسی صلے یا اجر کی خواہش نہ رکھے لیکن وہ صرف یہی تجربہ کرتا ہے، اس سے آگے نہیں بڑھتا۔

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere