ابو نجیب سہروردی کے صوفی اقوال

خاموشی قابلِ تحسین ہے کیوں کہ یہ ’’جہلا کے لیے پردہ اور عقل مندوں کے لیے زینت ہے‘‘۔

بیوی اور بچوں کے ساتھ صحبت شفقت و مہربانی سے ہونی چاہیے اور انہیں حسنِ اخلاق و درست رویے کی تعلیم دینی چاہیے۔

صوفی کو چاہیے کہ وہ لوگوں سے ان کی فہم و عقل کے مطابق گفتگو کرے اور نو آموز طالبِ حق کو لازم ہے کہ کسی مسئلے پر زبان نہ کھولے جب تک اس سے سوال نہ کیا جائے۔

مبتدی کو ہر لمحہ چوکنا رہنا چاہیے، اس کی ظاہری مصروفیت نفل عبادات میں ہو اور باطن میں اس کی توجہ مسلسل حق کی طلب پر مرکوز رہے، یہاں تک کہ اس پر الہام کا نزول ہو۔

صوفی وہی طعام کھاتے ہیں جس کے ماخذ سے وہ واقف ہوں، ظالموں اور گناہ گاروں کے دسترخوان سے پرہیز کرتے ہیں کہ رزق بھی روح پر اثر رکھتا ہے اور پاک غذا قلب کو صفا بخشتی ہے۔

صوفی کو چاہیے کہ وہ سفر کھیل تماشے، نمائش، خودنمائی یا دنیوی طلب کے لیے نہ کرے بلکہ اس کا ہر قدم رضائے الٰہی، تزکیۂ نفس اور معرفت کی طلب میں اٹھے۔

حضرت محمد پاک نے فرمایا کہ توبہ کرنے والا خدا کا محبوب ہے کسی گناہ پر توبہ نہ کرنا، اس گناہ کے ارتکاب سے بھی بڑا گناہ ہے۔

صوفیہ کو بلند علوم اور اعلیٰ احوال سے ممتاز کیا گیا ہے مگر ان کے اندر سب سے بلند شرف حسنِ اخلاق ہے، یہی ان کا اصل کمال ہے۔

صوفی کو چاہیے کہ اپنے ہی جیسے لوگوں اور ان افراد کی صحبت اختیار کرے جن سے فائدہ حاصل ہو، سب سے بہتر ساتھی وہ ہے جو دین میں ہم عقیدہ ہو اور جس کے سامنے اپنے گناہوں پر شرمندگی محسوس ہو۔


تمام علما کا متفقہ فیصلہ ہے کہ پیغمبروں کی فضیلت فرشتوں سے بڑھ کر ہے لیکن انسانوں اور فرشتوں کے درمیان فضیلت کی ترتیب پر اختلاف پایا جاتا ہے۔


خدا کے لیے محبت اور خدا کے لیے نفرت ایمان کے سب سے مضبوط رشتہ میں شامل ہیں۔

بھائیوں کے ساتھ کھانا غیر رسمی انداز میں کھانا چاہیے، غیر مانوس لوگوں کے ساتھ اچھے آداب سے اور فقرا کے ساتھ سخاوت کے ساتھ۔

خدا انسان کے اعمال کو اسی طرح پیدا کرتا ہے جیسے وہ خود انسانوں کو پیدا کرتا ہے، اسی طرح شرک اور نافرمانی بھی خدا کی تقدیر اور فیصلے کے مطابق وقوع پذیر ہوتے ہیں۔

بے حیا نگاہیں سخت عذاب کا باعث بنتی ہیں، نظر کو خدا کی عظمت و قدرت کو سمجھنے کے لیے استعمال کرنا چاہیے اور اسے نفس کی خواہشات سے آلودہ نہیں کرنا چاہیے۔

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere