Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama
noImage

ابو نصر سراج

1945 - 988 | بغداد, عراق

ایران کے مشہور صوفی، فقیہ اور محدث تھے، جنہیں طاؤس الفقرا اور صاحبِ اللمع کے القاب سے جانا جاتا ہے، آپ کا شمار تصوف کے ابتدائی دور کے اہم محققین میں ہوتا ہے اور آپ نے زہد و پارسائی میں بے پناہ شہرت حاصل کی۔

ایران کے مشہور صوفی، فقیہ اور محدث تھے، جنہیں طاؤس الفقرا اور صاحبِ اللمع کے القاب سے جانا جاتا ہے، آپ کا شمار تصوف کے ابتدائی دور کے اہم محققین میں ہوتا ہے اور آپ نے زہد و پارسائی میں بے پناہ شہرت حاصل کی۔

ابو نصر سراج کے صوفی اقوال

توکل علی اللہ یہ ہے کہ بندہ اپنی روزی کی فکر کو صرف ایک دن تک محدود رکھے اور آنے والے کل کی تمنا و آرزو سے دل کو خالی کرے۔

معرفت کی تین اقسام ہیں۔

معرفتِ تصدیق، معرفتِ حقیقت اور معرفتِ مشاہدہ۔

اور معرفتِ مشاہدہ کے درجے میں عقل، علم، بیان اور بحث سب فنا ہو جاتے ہیں، یہ وہ مقام ہے جہاں سالک کا وجود مٹتا ہے اور صرف مشہود باقی رہتا ہے، یہی وہ لمحہ ہے جسے صوفیہ کہتے ہیں کہ

عارف اس وقت عارف ہوتا ہے جب وہ عارف نہ رہے

’’توکل علی اللہ‘‘ راہِ سلوک کا آخری مقام ہے، کیوں کہ جب دل کو قربِ الٰہی کی لذت نصیب ہو جائے تو سعی و ریاضت کی راہیں اختتام کو پہنچ جاتی ہیں، یہ وہ مرحلہ ہے جہاں سالک اپنے وجود سے خالی ہو کر محض رضا میں ڈھل جاتا ہے نہ طلب باقی رہتی ہے نہ تقاضہ، بس تسلیم و تسکین کا سمندر ہوتا ہے۔

خدا اپنے محبوب بندوں پر جو سچے صوفی ہوتے ہیں، قرآن کی زبان کے پردے میں چھپی ہوئی حقیقت کو منکشف فرما دیتا ہے۔

انسانیت کا زوال ویسا نہیں جیسے سیاہی سیاہ سے یا سفیدی سفید سے مٹ جائے بلکہ وہ فطری اوصافِ انسانیت ہمیشہ قائم رہتے ہیں مگر جب خدا کا قادرِ یار نور ان پر نازل ہوتا ہے تو ان اوصاف میں ایک روحانی تغیر آ جاتا ہے جو لوگ عقیدۂ فنا بیان کرتے ہیں، ان کے نزدیک فنا کا مطلب یہ ہے کہ بندے کے اعمال و عبادات اپنی حیثیتِ خود میں مٹ کر رہ جائیں اور ہر عمل کو خدا کی ذات کے نام منسوب رہنے دیا جائے گویا حق نے خود ان کے لیے ہر نیکی سرانجام دی ہو۔

زہد ایک بلند مقام ہے اور سلوکِ الی اللہ تمام منازل کی بنیاد ہے، یہ راہِ حق کا پہلا زینہ ہے اور جب تک سالک دنیا سے بے رغبتی اختیار نہ کرے، وہ اس راہ میں کوئی پیش رفت نہیں کر سکتا۔

معرفت ایک ایسی آگ ہے جو دل کو جلا دیتی ہے، ایمان وہ روشنی ہے جو رہ دکھاتی ہے، مؤمن خدا کے نور سے دیکھتا ہے، جب کہ عارف خدا کی ذات کے ذریعے دیکھتا ہے، مؤمن کے دل میں ایمان کی روشنی ہے لیکن عارف کا دل خود خدا کی حقیقت میں گم ہے۔

محبت کا حقیقی مرتبہ اس وقت تک نہیں پہنچتا جب تک ایک دوسرے سے یہ نہ کہا جائے کہ ’’اے وہ جو میں ہوں‘‘

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

Recitation

بولیے