ابو طالب مکی کے صوفی اقوال

معرفت حق تعالیٰ کی رویت کا نام ہے، جب دل کی آنکھ ان تمام پردوں سے پاک ہو جائے جو دیدِ خداوندی میں حجاب تھے، تو وہ اپنے باطن کے نور سے صفاتِ حق کا مشاہدہ کرتی ہے، یہ نور اس نورِ ایمان سے فائق ہے جو اہلِ کمال کو عطا ہوتا ہے، کیوں کہ معرفت کا مقام ایمان سے سوا ہے، اسی لیے محبتِ حق اور معرفتِ حق ایک ہی نور کی دو تجلیاں ہیں، جن میں کوئی جدائی نہیں۔

زہد وہ کیفیت ہے جو بندے کی روح کو دنیا سے کاٹ کر آخرت کی طرف متوجہ کرتی ہے، حقیقی زہد یہ ہے کہ دنیاوی خیالات کو دل سے بالکل نکال دیا جائے اور انہیں محض ایک سراب اور فریب جانا جائے، یہی زہد آخرکار بندے کو دوستیٔ حق کے مقام تک لے جاتا ہے۔

معرفت درحقیقت وہ نور ہے جو حق تعالیٰ بندے کے دل میں القا فرماتا ہے، جب عاشق، راز و نیاز کے ذریعے اپنے محبوبِ حقیقی سے لخت لخت ملتا ہے، تب جا کر اسے سچی معرفتِ الٰہی حاصل ہوتی ہے۔

بندہ حقیقتِ توحید کا یقین اسی وقت پاتا ہے جب اسے معرفت نصیب ہوتی ہے، کیوں کہ معرفت ہی وہ دروازہ ہے جس سے وحدتِ حق کا جلوہ آشکار ہوتا ہے۔

محبت ہی وہ چراغ ہے جو اسرارِ الٰہی کا در کھولتی ہے، جو حق میں فنا ہو جاتے ہیں، صرف اسی کو دیکھتے اور اسی میں ٹھہرتے ہیں، وہ اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب ہوتے ہیں اور انہیں بے نقاب دیدار عطا ہوتا ہے، وہ عین الیقین کی آنکھ سے اسے دیکھتے ہیں۔

صبر کے تین درجے ہیں۔
پہلا درجہ وہ ہے جہاں بندہ شکوہ کرنا چھوڑ دیتا ہے، یہ توبہ کرنے والوں کا مقام ہے۔
دوسرا جہاں وہ قضا پر راضی ہو جاتا ہے، یہ زاہدوں کا مرتبہ ہے۔
تیسرا درجہ وہ ہے جہاں بندہ اپنے رب کے ہر فیصلے سے محبت کرنے لگتا ہے، یہ خدا کے خاص دوستوں کا مقام ہے۔

اے میرے رب! میرے باطن میں نور بڑھا دے، مجھے سراپا نور بنا دے اور میرے وجود کو روشن کر دے۔

صبر حق تک رسائی کا سچا وسیلہ ہے، صبر میں روح، روحانی سرور اور محبوب سے قربت کا ذائقہ پاتی ہے، یہ وہ مقام ہے جہاں راہِ حق کا راہی دل سے ان آزمائشوں کو خوش آمدید کہتا ہے جو اسے محبوب تک لے جاتی ہیں۔

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere