Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama
Agha Shayar Qazalbash's Photo'

آغا شاعر قزلباش

1871 - 1940

آخری کلاسیکی دور کے اہم شاعر، داغ دہلوی کے شاگرد

آخری کلاسیکی دور کے اہم شاعر، داغ دہلوی کے شاگرد

آغا شاعر قزلباش کا تعارف

تخلص : 'شاعر'

اصلی نام : آغا ظفر بیگ قزلباش

پیدائش : 05 Mar 1871

وفات : 12 Mar 1940

افسر الشعراء

آغا شاعر قزلباش دہلوی ان شاعروں میں سے ایک تھے جن کو اپنے عہد میں ملک گیر شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی۔ وہ داغ دہلوی کے شاگرد تھے لیکن ان کی شاگردی میں آنے سے پہلے ہی وہ مشاعروں میں اپنی خوش گوئی کی داد حاصل کر کے عوام و خواص میں شہرت و مقبولیت حاصل کر چکے تھے۔ ان کے ہمعصر اساتذہ ان کے کلام کی فصاحت روانی اور برجستگی کے معترف تھے۔ نہ صرف دہلی بلکہ ملک کے بیشتر حصوں میں ان کی شخصیت اور شاعری کا سکہ بیٹھا ہوا تھا۔وہ استاد فن ،صاحب کمال اور زبان داں تسلیم کئے جاتے تھے۔ یہی وجہ تھی سیکڑوں شعراء نے ان کی شاگردی اختیار کی تھی ۔علامہ اقبال جیسی بلند پایہ ہستیاں زبان کے معاملہ میں ان سے رجوع کرتی تھیں۔  وہ گوناگوں صلاحیتوں کے مالک تھے۔غزلوں کے علاوہ ان کی نظمیں، مرثئےاور منظوم ترجمے بھی ان کے عہد میں مقبول تھے۔انھوں نے ڈرامہ نگاری،انشائیہ،ناول نگاری اور اپنی صحافت سے بھی اردو ادب کو مالامال کیا، آغا شاعر نے داغ اسکول کی ہی خدمت نہیں کی بلکہ جدید شاعری کی راہوں کو بھی روشن کیا۔ رباعیات عمر خیام اور قران حکیم کے منظوم تراجم اردو ادب میں ان کی ایسی خدمات ہیں جن کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ 
آٖغا شاعر قزلباش کا اصل نام  ظفر علی بیگ تھا۔ ان کے جد اعلی ان سپاہیوں میں تھے جو نادر شاہ کی فوج میں شامل ہو کر دہلی آئے اور وہیں بس گئے۔ آغا شاعر کے والد آغا عبد علی بیگ بھی شاعر تھے اور فدائی تخلص کرتے تھے۔وہ دہلی کے کشمیری گیٹ کے محلہ کھڑکی ابراہیم خاں میں رہتے تھے،  وہیں 5 مارچ 1871ء کو آغا شاعر پیدا ہوئے۔ آغا شاعر کا گھرانہ آسودہ حال اور فارغ البال تھا۔ وہ اپنی ماں کے بہت لاڈلے تھے۔ آغا کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی۔دو اساتذہ ان کو عربی اور قرآن کا درس دینے آتے تھے۔فارسی ان کے گھر کی زبان تھی۔ابتدائی تعلیم کے بعد ان کو اس وقت دہلی کی مشہور درسگاہ اینگلو عربک اسکول میں داخل کرایا گیا جہاں سے انو ں نے آٹھویں جماعت کا امتحان پاس کیا، اسکول کے زمانہ میں ہی ان کو مضمون نویسی اور شاعری کا شوق پیدا ہوا۔اسی زمانہ میں ان کی ماں کا انتقال ہو گیا اور باپ نے دوسری شادی کر لی۔سوتیلی ماں نے آغا پر عرصہء حیات تنگ کر دیا۔یہاں تک کہ انہیں گھر سے نکال دیا گیا۔بعد میں انھوں نے اپنی علمی استعداد میں خود اضافہ کیا۔ گھر سے نکالے جانے کے بعد ان کو اک "بیگم صاحبہ" نے،جو شاعرہ بھی تھیں، پناہ دی اور آغا کی خوشخطی دیکھ کر ان کو اپنی غزلیں خوشخط لکھنے کا کام سونپ دیا۔ان ہی بیگم صاحبہ کے توسط سے آغا شاعر کی رسائی نواب سعید الدین احمد خاں طالب دہلوی تک ہوئی۔نواب صاحب اور ان کے ہمنشینوں کی صحبت سے آغا کو علمی اور فنی فیض حاصل ہوا۔ اپنی خدا داد صلاحیت اور محنت و ریاضت  کی بدولت جلد ہی دہلی کے مشاعروں  میں  آغا شاعر کا طوطی بولنے لگا۔طبیعت کی روانی کا یہ عالم تھا کہ ایک ہی دن میں چار پانچ سو شعر کہہ ڈالتے تھے۔ان کی غزلیں گانے والیوں کے کوٹھوں میں گونجنے لگیں  اور گلی کوچوں میں گائی جانے لگیں۔آغا شاعر کو دہلی سے عشق تھا لیکن تلاش معاش نے ان کو دہلی چھوڑنے پر مجبور کیا پہلے وہ  1898ء میں ممبئی گئے جہاں ڈرامہ کمپنیوں کے لئے کچھ ڈرامے لکھے لیکن کوئی خاص کامیابی نہیں ملی تو دہلی واپس آ کر اک رسالہ "پنجہء نگاریں" نکالا جس میں اپنے شاگردوں کی غزلیں شائع کرتے تھے۔اس کے بعد تلاش معاش میں حیدرآباد چلے گئے اور وہیں داغ کی شاگردی اختیار کی۔اور وہاں کے مشاعروں میں چمکنے لگے۔مہاراجہ کشن پرشاد شاد نے انیںد اپنے زمرۂ شعراء میں شامل کر لیا۔کچھ عرصہ بعد وہ دہلی آ گئے پھر امرتسر لاہور اور کلکتہ میں قسمت آزمائی کی۔ کلکتہ میں سفیر ایران نصیر الملک مرزا شجاعت علی بیگ نے ان کو اپنے دربار سے وابستہ کر لیا اور یہیں ان کو افسرالشعراء کا خطاب ان کے اک قصیدہ پر ملا جو انو ں نے ایران کے مظفر الدین شاہ کی مدح میں لکھ کر ایران بھیجا تھا۔اس کے بعد راجہ جھالاواڑ(راجستھان) راج رانا بھوانی سنگھ نے ان کو اپنا درباری شاعر بنا لیا اور تقریباً  دس سال آغا نے وہاں فراغت سے گزارے۔ اس کے بعد خیرپور(سندھ) کے والی نواب میر علی نواز خاں تالپور نے دستگیری کی اور ان سے مشورۂ سخن کرنے لگے۔آغا شاعر آخری عمر میں بہت رقیق القلب ہو گئے تھے اور اکثر ذرا ذرا سی بات پر رویاکرتے تھے ۔ایک بار جوش ملیح آبادی نے ان سے کہا تھا "آٹھ پہر کا رونا دھونا۔۔یہ کیا ہو گیا ہے آپ کو!۔یہ پورا عالم کون و فساد اک دیوار گریہ ہے آپ اور فانی دو یہودی ہیں جو اس دیوار کے سایہ میں بڑے استقلال کے ساتھ بیٹھے مسلسل رویا کرتے ہیں اور یہ کرۂ ارض اک دائمی یوم عاشورہ ہے جس میں آپ اور فانی علی الاتصال ماتم فرمایا کرتے ہیں۔۔۔" آغا نے کہاکہ میرے رونے کی ہنسی نہ اڑاؤ۔میرا عالم شباب وہ تھا کہ ہزاروں حسین عورتیں میرے گرد منڈلایا کرتی تھیں اور ایک رات کو تو ایک عورت چھری لے کر آ گئی کہ مجھ سے منہ چراؤ گے تو تمایری گردن کاٹ کر اپنی بھی جان دے دوں گی ۔۔۔اور آج! یہ کہہ کر پھر رونے لگے۔ استفسار پر معلوم ہوا کہ اس روز اک بوڑھی میم نے جس کو وہ تاکا کرتے تھے ،ان کی طرف  دیکھ کر تھوک دیا تھا۔ جوش کہتے ہیں کہ اس بات پر کوئی اور ہوتا تو ہنس پڑتا مگر مجھ پر رقت طاری ہو گئی۔ آغا شاعر آخری عمر میں صاحب فراش تھے مختلف بیماریوں نے گھیر رکھا تھا جگر اور معدہ جواب دے گئے تھے۔مہاراجہ کشن پرشاد شاد نے ماہانہ وظیفہ مقرر کر رکھا تھا،خیر پور سے بھی سالانہ وظیفہ ملتا تھا اسی پر گزر بسر تھی۔12 مارچ 1940ء کو ان کا انتقال ہوا۔صفدر جنگ کے قریب قبرستان    درگاہ  شاہ مرداں میں تدفین ہوئی۔اب قبر کا کوئی نشان باقی نہیں۔
آغا شاعر قزلباش نے یوں تو نثرو نظم میں بہت کچھ لکھا لیکن ان کا اصل میدان غزل ہے۔سلاست روانی اور زبان کی صفائی کی خصوصیات ان کی نظموںمیں بھی پائی جاتی ہے۔قرآن کے منظوم ترجمہ پر انواں نے بہت محنت کی لیکن سنیوں نے اسے اس لئے پسند نہیں کیا کہ وہ اک شیعہ کا لکھا ہوا تھا اور شیعوں نے اسے اس لئے رد کر دیا کہ وہ اک سنی عالم شاہ عبدالقادر کے ترجمہ پر مبنی تھا  کچھ لوگوں نے اسے کلام اللہ کے ساتھ کھلواڑ پر محمول کیا۔اکبر الہ آبادی نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے انہیں لکھا ۔۔’’ حضرت آغا تسلیم! اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔آپ نے کلام اللہ کو نظم کر دیا۔اب کوئی اللہ کا بندہ اسے طبلہ اور سارنگی پر گا بھی دے تو مزا ہی آ جاے‘‘۔لیکن رباعیات عمر خیام کا منظوم ترجمہ آج بھی مقبول ہے اور اسے ان کا بڑا کارنامہ قرار دیا جا سکتا ہے۔

 

موضوعات

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے