الطاف مشہدی کا تعارف
اختر شیرانی کے بعد ایک رومانی شاعر کے طور ابھرے۔ نہایت مقبول ڈرامہ نگار, ادیب اور انقلابی شاعر الطاف مشہدی کی پیدائش 10 فروری 1914ء کو آلو مہار مشرقی سرگودھا میں ہوئ تھی۔ ان کا اصل نام سید الطاف حسین تھا اور ان کے والد کا نام سید علی حسین شاہ تھا۔ انہوں نے منشی فاضل پرائیوٹ طور پر پاس کیا تھا۔ زمینداری اور صحافت دونوں ذریعہ معاش تھے۔ الطاف مشہدی کی رومانیت میں ستارے، پھول، چاندنی راتیں، بیمار کلیاں، پر خواب فضائیں اور سحر کار ماحول نے بڑی خوبی سے جادو جگایا ہے اور اس فضا میں اس کا رومانی کردار ریحانہ، شمیم و عنبر بکھیرتا رہا ہے۔ مجموعی طور پر وہ رومانی تحریک کی ایک ایسی آواز تھے جس میں اختر شیرانی کی آواز بھی شامل ہے۔
الطاف کے کلام میں سوز و درد تھا، جوش اور بلبلہ بھی لیکن ان جزبات کی وسعت محبت ہی تک مہدود ہنہیں تھی ۔ سوز و گداز الطاف کے کلام کا خاص جوہر تھا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ غم نصیب شاعر نشات و کیف سے کبھی دو چار نہیں ہوا، وصل کی خوشی کبھی اس کے حصہ میں نہیں آئ۔ان کے سرفروش جزبات میں وطنیت اور مزدور کی محبت تھی۔ جس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ الطاف ادب میں سامراج پسندوں کی مخالف سمت میں کھڑے ہوتے تھے۔ ایک جگہ پر علّمہ تاجور نجیب آبادی لکھتے ہیں کہ "اقبال کے بعد زمانے نے ایک اور کروٹ بدلی اور شعرا کے نوجوان طبقہ میں جوش اور الطاف جیسے فیض شناس شاعر پیدا ہوئے۔"
جب ملک بھر میں آزادی کی نظمیں تہریر کی جا رہی تھیں تب الطاف مشہدی نے بھی اپنی نظم "جھوم کر اُٹھو وطن آزاد کرنے کے لئے" اس وقت لکھی جو کافی مشہور و مقبول ہوئ تھی اور اسی کے سبب انہیں شہرت بھی حاصل ہوئ۔ کئی رسائل اور اخبارات ان کی ادارت میں مختلف مقامات سے شائع ہوتے رہے ہیں۔ ان کی تصانیف میں ’’داغ بیل‘‘، ’’ڈگر‘‘، ’’الطاف کے گیت‘‘، ’’الطاف کے نغمے‘‘، ’’تصویر احساس‘‘، ’’پربت کے گیت‘‘، ’’لذت رنگ و بو‘‘، ’’شاخ گل‘‘ شامل ہیں۔ 24 جون 1981ء کو سرگودھا، پاکستان میں انتقال فرما گئے۔