Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama
Insha Allah Khan's Photo'

انشا اللہ خان

1753 - 1817

لکھنو کے سب سے گرم مزاج شاعر، میر تقی میر کے ہم عصر اور مصحفی کے ساتھ چشمک کے لیے مشہور

لکھنو کے سب سے گرم مزاج شاعر، میر تقی میر کے ہم عصر اور مصحفی کے ساتھ چشمک کے لیے مشہور

انشا اللہ خان کا تعارف

تخلص : 'انشا'

اصلی نام : انشا اللہ خان

پیدائش :مرشد آباد, مغربی بنگال

انشاؔ قدرت کی طرف ہی سے ایک بے چین سیماب صف طبیعت لائے تھے امنگوں اور جولانیوں سے بھری تیزی طراری ، طباعی اور شوخی سوداؔ سے بڑھ کر ان میں تھی ۔ پیشہ آبائی میں اس کی کھپت بھلا کیسے ہوتی شاعری ہی ایسا وسیع میدان تھا جس میں ان کی جولانیاں اور ہنگامہ آرائیاں بہ قدر ان کی طبیعت کے رونما اور پرورش پا سکتی تھیں چنانچہ جب دہلی آئے تو بچے کھچے دربار شاہی کو گل افشاں کردیا۔ دہلی میں اس وقت سوداؔ اور میرؔ وغیرہ تو تھے نہیں البتہ بوڑھے شوقین بزرگ سخن پرکھنے والے اور داد سے دل بڑھانے والے موجود تھے ۔ کچھ بوڑھے حاتمؔ و ہدایت وغیرہ اور کچھ جوان حکیم ثناء اللہ فراقؔ حکیم قدرت اللہ قاسم ، شاہد ہدایتؔ میاں شکیبا میاں عظیم بیگ میر قمرالدین منتؔ ، شیخ ولی اللہ محب وغیرہ سوداؔ ، میرؔ اور دردؔ وغیرہ کے شاگردوں کا مجمع تھا۔ انشاءؔ سے بڑے بڑے معرکے رہے ۔ یہ بزرگ اپنی بزرگی اور مشق سخن نازاں ، ادھر یہ شمشیر زباں، مقابلوں اور معرکوں میں فیصلہ آخر ذہن طباع ہی کے سر رہا جب وہاں سے لکھنؤ آئے تو یہاں اس سے بڑے معرکے ہوئے۔ مصحفیؔ ، مرزا قتیلؔ جرأت وغیرہ کا رنگ جما تھا شاعروں میں مقابلے ہوئے ، چوٹیں چلیں ،سوانگ بنائے گئے ، حاکم وقت ان کا موافق آخر کار ان کا سکہ ہر جگہ جم گیا ۔ نواب سعادت علی خاں الگ ان کے لطیفہ گوئی طباعی اور شاعری سے محظوظ ہوتے تھے ۔ آخر دم تک اسی نواب سے وابستہ رہے آخر آخر آزاد لکھتے ہیں کہ بعض شکر ر نجیوں کے باعث علاحدگی اور ہوگئی اور پھر جنون ہوگیا بقیہ عمر بڑی کس مپرسی اور غربت میں بسر کی ۔ انشاءؔ کے مزاج میں دہلی کی سنجیدگی نہیں ہے البہ ان کی زبان میں وہی دہلی کی روانی فصاحت ، بندش اور محاورے موجود ہیں انکی طبیعت بہ قول قدرت اللہ قاسمؔ ،شوخ و ہنگامہ آرا و خود بیں تھی۔ اس لیے لکھنؤ کا ماحول ان کے لیے زیادہ سازگار ثابت ہوا ۔ یوں تو لکھنؤیت کی ابتد وسط تیرہویں صدی ہجری سے ہوئی لیکن اپنے ماحول کے زیر اثر چولی دوپٹہ ازار بند چوڑیوں اور چوٹیوں کے مضامین قلم بند کرنے والوں میں بھی ان کا نمبر اول ہے ۔ سوداؔ کی طرح ان کے قصائد اور ہجوؤں میں بھی زور شور ہے لیکن سودا کی سی سنجیدگی ان کی غزلوں میں موجود نہیں یہ غزلوں میں بھی پھکڑپن پر اترآتے ہیں اور محبوب کے سراپا کی جزئیات کی طرف ان کی لچائی نگاہ زیادہ رہتی ہے اکثر اسکو خوش کرنے کے لیے اس کی زبان میں گفتگو بھی کرجاتے ہیں ۔ مصحفیؔ اور انشاؔ میں ان کے اسالیب سے قطع نظر ان دونوں میں یہ بڑا فرق ہے کہ مصحفیؔ میرؔ کا مسلک اختیار کیے ہوئے ہے یعنی دہلویت کو صحیح مستند مانتے ہیں ۔ انشاؔ باوجود سودؔ کی طرح چشم تماشا میں رکھنے کے برخلاف سوداؔ کے اپنی خارجیت کو شوخیوں اور رنگینیوں سے پر کرتے ہیں ان کے اشعار کیا ہیں آتش بازی کے خوش نما پھول ہیں۔اور جب مقابلے پر نظم کہتے ہیں تو بندش ایسی چست اور مضامین ایسے گرم لاتے ہیں کہ آدمی متحیر ہوجاتا ہے اور زبان سے بے اختیار واہ نکل جاتی ہے اور یہچ یز اس لذت درد سے بالکل مختلف ہے جو میر و مصحفی ؔ کا حصہ ہے۔ واقعی انشاؔ کی طبیعت میں ایسے جوہر تھے کہ اگر بہ طریق راسخۂ شعرا کہتے اور نواب سعادت علی خاں کی صحبت میں اپنی شاعری کا جوہر نہ کھودیتے تو اردو شاعری کے اساتذہ کرام کے ساتھ ان کاکلام بھی بقائے دوام کا درجہ حاصل کرتا سید ؔ انشاؔ کے کلام میں شوخی ظرافت بے ساختہ پن سب کچھ موجود ہے لیکن ایک عجیب ہنگامہ پن کے ساتھ بے ہنگم ان کی ظرافت اکثر تمسخر اور پھکڑ پن سے گزرتی ہوئی فحشیات اور شہد پن تک پہنچ جاتی ہے کاش زمانے نے انہیں مسخر گی کا پیشہ اختیار کرنے پر مجبور نہ کیا ہوتا اور ان کو موقع ملتا کہ اپنی ظرافت میں لطافت کا عنصر سموسکتے ان کی ظرافت محض بناوٹی نقالی نہ ہوتی تو اردو کے بیش تر یاس انگیز کلام میں ان کے تبسم اور قہقہے ایک صبح درخشاں اور چہرہ تاباں کی حیثیت رکھتے میرؔ کی سادگی اور مایوسی کے مقابلے میں ان کی شادابی اور شگفتگی ایک طرفہ تحفہ ہوتا اور ایک نئے طرز کی غزل وجود میں آجاتی۔

موضوعات

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے