خالد محمود نقشبندی کا تعارف
اردو نعتیہ ادب کی کہکشاں میں ایک ایسا روشن ستارہ جس کی تابانی آج بھی قلوب کو منور کرتی ہے، خالد محمود نقشبندی 13 جون 1941ء کو پنجاب کے تاریخی شہر چکوال میں پیدا ہوئے، زندگی کے ابتدائی ایّام وہیں بسر کیے، تاہم محض گیارہ برس کی عمر میں کراچی منقتل ہوگئے، تعلیم کے مراحل مکمل کرنے کے بعد فارسی زبان میں مہارت حاصل کی جو بعد ازاں ان کے نعتیہ کلام میں لطافت، روانی اور کلاسیکی تہذیب کا باعث بنی۔
خالد محمود نقشبندی نے نعت خوانی سے اپنے روحانی سفر کا آغاز کیا لیکن فطرت میں جو عشقِ رسول کا جوش و خروش تھا، وہ انہیں نعت گوئی کی طرف لے آیا، نعت گوئی میں انہوں نے وہ رفعت حاصل کی کہ ان کا کلام محبتِ مصطفیٰ کا ترجمان بن گیا، ان کے اشعار دلوں میں سوز و گداز، آنکھوں میں اشک اور زبان پر درود و سلام کی تاثیر چھوڑتے ہیں۔
ان کے مشہور نعتیہ کلام میں یہ نعتیں خصوصاً مقبولِ عام ہوئیں۔
(۱) دن رات مدینے کی دعا مانگ رہے ہیں
(۲) کوئی سلیقہ ہے آرزو کا، نہ بندگی میری بندگی ہے
(۳) قرآنِ مجسم تری ہر ایک ادا ہے
(۴) چلو دیارِ نبی کی جانب
(۵) آوازِ کرم دیتا ہی رہا
(۶) میرا سارا سر و سامان مدینے میں رہے
(۷) یہ سب تمہارا کرم ہے آقا کہ بات اب تک بنی ہوئی ہے
(۸) منگتے خالی ہاتھ نہ لوٹے کتنی ملی خیرات نہ پوچھو
(۹) اب میری نگاہوں میں تو جچتا نہیں کوئی
(۱۰) یہ ناز یہ انداز ہمارے نہیں ہوتے
ان کے اشعار میں نہ صرف عشقِ رسول کی خوشبو مہکتی ہے بلکہ زبان و بیان کی وہ سادگی اور سچائی بھی جھلکتی ہے جو نعتیہ شاعری کا جوہر ہے، ان کے نعتیہ مجموعے کا نام یہ ہے۔
(۱) حسن ادب
(۲) قدم قدم سجدے (1982ء)
(۳) قرار جاں(1974ء)
نعت گوئی کا یہ خوشگوار چراغ خالد نقشبندی 17 دسمبر 2018ء بروز پیر، کراچی کے علاقے ایف بی ایریا، بلاک 18 سمن آباد میں اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملا۔