وارث شاہ کا تعارف
پیدائش :جنڈیالہ شیر خان, پنجاب
وارث شاہ پنجاب کے قصبہ جنڈیالہ شیر خان میں 5 ربیع الثانی 1130ھ موافق 1718ء کو پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام سید گل شیر شاہ تھا۔ ابھی کم سن ہی تھے کہ علم حاصل کرنے کی غرض سے قصور کی جانب روانہ ہوئے اور مولانا غلام مرتضیٰ جو اس وقت قصور میں ہی تشریف فرما تھے ان کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے۔ آپ نے بُلھے شاہ کے ہمراہ ان سے تعلیم حاصل کی۔ جب دنیاوی علم حاصل کر چکے تو مولوی صاحب نے اجازت دی کہ جاؤ اب باطنی علم حاصل کرو اور جہاں چاہو بیعت کرو۔ بلھے شاہ نے تو شاہ عنایت قادری سے بیعت کی جبکہ وارث شاہ نے بابا فرید گنج شکر کے خاندان میں بیعت کی۔ جب ”ہیر رانجھا“ کے قصہ کے متعلق آپ کے استاد محترم غلام مرتضیٰ کو علم ہوا تو انہوں نے اس واقعہ پر ناراضگی کا اظہار کیا اور کہا وارث شاہ، بلھے شاہ نے علم حاصل کرنے کے بعد سارنگی بجائی اور تم نے ہیر لکھ ڈالی۔ جب آپ نے کوئی جواب نہ دیا تو مولانا نے اپنے مریدوں کو کہہ کر آپ کو ایک حجرے میں بند کروا دیا۔ دوسرے دن آپ کو باہر نکلوایا اور کتاب پڑھنے کا حکم دیا۔ جب آپ نے پڑھنا شروع کیا تو مولانا صاحب کی حالت دیکھنے کے قابل تھی۔ سننے کے بعد فرمایا، وارثا ! تم نے تو تمام جواہرات مونج کی رسی میں پرو دئے ہیں۔ یہ پہلا فقرہ ہے جو اس کتاب کی قدر و منزلت کو ظاہر کرتا ہے۔ وارث شاہ کے کلام اور ان کے فقرہ کو آج بھی کثرت سے نوجوانوں سے لے کر بوڑھوں تک پسند کرتے ہیں اور اپنی گفتگو میں جگہ جگہ بطورحوالہ پیش کرتے ہیں۔ وارث شاہ درحقیقت ایک درویش صوفی شاعر تھے۔ ان کا دور محمد شاہ رنگیلا سے لے کر احمد شاہ ابدالی تک کا دور ہے۔ وارث شاہ کو پنجابی زبان کا شیکسپیئر بھی کہا جاتا ہے۔ پنجابی زبان کو آپ نے ہی عروج بخشا ہے۔ وارث شاہ کا کلام ہندوستان اورپاکستان خاص طور پر سکھوں میں بہت مقبول ہے۔ وارث شاہ نے 10 محرم 1220ھ میں وفات پائی۔