Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama
Aasi Ghazipuri's Photo'

آسی غازیپوری

1834 - 1917 | غازی پور, بھارت

چودھویں صدی ہجری کے ممتاز صوفی شاعر اور خانقاہ رشیدیہ جون پور کے سجادہ نشیں

چودھویں صدی ہجری کے ممتاز صوفی شاعر اور خانقاہ رشیدیہ جون پور کے سجادہ نشیں

آسی غازیپوری کا تعارف

تخلص : 'آسی'

اصلی نام : محمد عبدالعلیم

پیدائش :بلیا, اتر پردیش

وفات : اتر پردیش, بھارت

رشتہ داروں : فانیؔ گورکھپوری (مرشد)

آسی غازی پوری کا خاندان اپنی علمی اور روحانی عظمتوں کی وجہ سے شہرت و مقبولیت کا حامل رہا ہے، آپ کے والد ماجد شیخ قنبر حسین اپنے وقت کے کامل بزرگ تھے، آپ کا پدری نسب نامہ حضرت عمر فاروق سے جا ملتا ہے، آپ کی نویں پشت میں حضرت شیخ مبارک (پیدائش 934ھ) اپنے عہد کے مرشد کامل تھے، 966ھ میں قصبہ سکندر پور ضلع بلیا میں رشد و ہدایت کا سلسلہ قائم کیا اور 1016ھ میں وصال فرمایا، آپ کی والدہ بی بی عمدہ مفتی احسان علی قاضی پورہ آرہ کی صاحبزادی تھیں، مفتی موصوف شاہ غلام حیدر بلیاوی کے اجل خلفا میں شمار کئے جاتے ہیں، مفتی احسان علی حضرت ابوبکر صدیق کی اولاد میں سے ہیں اس لئے آپ پدری اور مادری نسب کے اعتبار سے صدیقی اور فاروقی ہیں۔

آپ کا اسم گرامی عبدالعلیم اور تاریخی نام "ظہور الحق" ہے، 19 شعبان المعظم 1250ھ میں موضع سکندر پور ضلع بلیا میں پیدا ہوۓ، آپ اپنے والدین کے واحد چشم و چراغ تھے، ابھی دس ماہ کے بھی نہیں ہوۓ تھے کہ والدہ داغ مفارقت دے گئیں، نانی صاحبہ نے اس درے بے بہا کو اپنے سایہ عاطفت میں پناہ دی اور پرورش و پرداخت کے لئے اپنے ہمراہ آرہ صوبۂ بہار لے آئیں جہاں وہ گیارہ برس تک زیر تعلیم و تربیت رہے، عربی و فارسی اپنے نانا مفتی احسان علی سے پڑھا، بارہ برس کی عمر میں سکندر پور آۓ اور خانقاہ رشیدیہ، جون پور کے سجادہ نشین شاہ غلام معین الدین رشیدی سے مرید ہوۓ جو آپ کو اپنے ساتھ تحصیل علوم کے لئے جون پور لیتے گئے، پہلے پہل تو خود آسی کو تعلیم ظاہری دینا شروع کیا لیکن جب سخاوت علی جون پوری کی تحریک سے جون پور میں ایک دینی مدرسہ قائم ہوا اور اس میں مولانا عبدالحلیم فرنگی محلی بغرض درس و تدریس بلاۓ گئے تو آسی کو مولانا سے پڑھنے کا شوق ہوا اور وہ آپ کے حلقہ درس میں شامل ہوگئے۔ اس دوران مفتی محمد یوسف صاحب سے بھی بعض کتب پڑھی پھر علم طب کے لئے اسی مدرسہ میں حکیم سید جعفر حسین کاشف لکھنؤی کی صحبت میں بیٹھے۔ آسی غازی پوری کی شادی غازی پور کے محلہ نورالدین پورہ میں منشی راحت علی صاحب کی بڑی صاحبزادی بی بی علیمن سے ہوئی جن سے تین صاحبزادیاں پیدا ہوئیں۔ کم سنی میں دو صاحبزادی داغ مفارقت دے گئیں۔ بڑی صاحبزادی بی بی مبارک جنت کی شادی محلہ شجاول پور میں مولوی عبدالرشید صاحب سے ہوئ جن سے ایک صاحبزادی بی بی عزت ہوئیں۔ آسی غازی پوری جون پور کی بافیض، ذی علم اور باعظمت خانقاہ رشیدیہ کے سجادہ نشین تھے۔ آسی کے پیرومرشد شاہ غلام معین الدین رشیدی نے آپ کو نہ صرف اپنی اولاد باطنی قرار دیا بلکہ اپنا جانشین بھی بنایا اور اجازت و خلافت سے بھی نوازا۔ اس طرح خانقاہ رشیدیہ سے تعلق استوار ہوا اور آپ خانقاہ رشیدیہ کے سجادہ نشین رہے اور رشد وہدایت کا سلسلہ جاری رکھا اور خانقاہی پیغام کو دور تک پھیلایا۔

آسی غازی پوری کو طبع موزوں ملی تھی، وہ پہلے عاصی تخلص کرکے روایتی انداز میں غزلیں کہتے تھے پھر بعد میں آپ نے اپنا تخلص آسی رکھا، شاعری میں ناسخ لکھنوی کے اور دائرہ حضرت شاہ اجمل الہ آباد کے سجادہ نشین شاہ غلام امام اعظم الہ آبادی کے شاگرد ہوۓ، آسی کو شعر و سخن پر کافی مہارت تھی، وہ نہایت ہی ذہین و فطین اور زود گو شاعر تھے، ان کے کلام میں جذبات عشق کی پاکیزگی اور سوز و گداز کی جو طہارت ملتی ہے اس کا سبب یہ ہے کہ وہ عشق حقیقی میں فنا ہوکر مجسم سوز و گداز بن گئے تھے، آسی کو شاعری میں تصوف کی چاشنی بھی ہے اور تغزل کا سوز و گداز بھی، آسی کو اگر دبستان ناسخ کا میر کہاجاۓ تو بے جا نہ ہوگا، تصوف کے علاوہ آسی کی غزلوں میں تغزل کا وہ رنگ بھی ہے جو میر تقی میر کا طرہ امتیاز تھا، آسی کی غزلیں مرصع ہیں اور ان کا ہر شعر منفرد رنگ و بو کا حامل ہے، اس شعر کےتیور دیکھئے۔

عشق میں اے کوہکن کیا زخم سردرکار تھا

دردِ دل درکار تھا دردِ جگر درکار تھا

آسی کے رنگ کو اس شعر میں بھی ملاحظہ کیجئے

اتنا تو جانتے ہیں کے عاشق فنا ہوا

اور اس سے آگے بڑھ کے خدا جانے کیا ہوا

آسی صاحبِ کمال شاعر گذرے ہیں، ان کے شاگردوں کی تعداد بھی اچھی خاص ہوئی ہے، شمشاد لکھنوی، حکیم فریدالدین احمد فرید، حکیم سید محمد شاد غازی پوری، مولانا محمد ایمن سکندپوری اور لبیب سکندر پوری ان کے اہم شاگرد ہیں، آسی غازی پوری نے اپنی ساری زندگی غازی پور ہی میں گذار دی، علم و فضل، رشد و ہدایت، شعر و ادب کا یہ درخشندہ ستارہ 2 جمادی الاول 1335ھ میں غروب ہوگیا اور محلہ نورالدین پورہ، غازی پور میں سپرد خاک ہوا، آپ کا آستانہ مرجع خلائق ہے جس سے فیوض و برکات جاری ہیں۔

موضوعات

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے