تمام
تعارف
کلام20
نعت و منقبت23
غزل64
شعر87
ویڈیو 44
گیلری 1
قطعہ1
گاگر1
چادر5
فارسی صوفی شاعری1
سہرا4
بلاگ2
سلام3
مبارک2
ہولی1
رباعی3
بیدم شاہ وارثی کا تعارف
تخلص : 'بیدم'
اصلی نام : غلام حسین
وفات : 24 Nov 1936 | اتر پردیش, بھارت
رشتہ داروں : ابر شاہ وارثی (مرید), نثار اکبرآبادی (مرشد), سرتاج وارثی (پوتا), فراز وارثی (پوتا), حاجی وارث علی (مرشد)
بیدم شاہ وارثی 1876ء میں اٹاوہ میں پیدا ہوئے۔ غلام حسین نام اور بیدمؔ تخلص کرتے تھے۔ علومِ رسمیہ کی ابتدائی اور آخری تعلیم اٹاوہ ہی میں ہوئی۔
طبیعت میں شاعرانہ وجدان فطری طور پر ودیعت تھا۔ دوسروں کی غزلیں سنتے اور گنگناتے رہتے تھے۔ رفتہ رفتہ اس مشق نے ارتقاء کی منزلیں طے کی۔ شاعر بننے کی تمنا ئےازلی آگرہ لےگئی جہاں دوسرے احباب و اربابِ وطن بھی موجود تھے۔ حضرت شاہ اکبر داناپوری کے ممتاز شاگرد اور مرید و خلیفہ نثار اکبر آبادی کا حلقۂ تلامذہ اس وقت آگرہ میں عروج پر تھا۔ آپ بھی اس حلقہ میں شامل ہوگئے۔ کچھ عرصہ بعد نعت گو شاعر کا درجہ حاصل کرلیا۔
اسی سلسلہ میں استاد کے فیضان صحبت سے متاثر ہوکر سلسلۂ وارثیہ کے روح رواں حاجی وارث علی شاہ کے دست حق پرست پر بیعت ہوئے اور احرام پوش ہوگئے۔ اس کے تھوڑے ہی عرصہ بعد آپ ’’سراج الشعرا‘‘ اور’’ لسان الطریقت‘‘ کے خطاب سے نوازے گئے۔ حاجی وارث علی شاہ کے ساتھ رہنے کا موقع بہت زیادہ نصیب ہوا۔ حاجی صاحب سے والہانہ محبت تھی۔ فقر و فاقہ کی زندگی میں بھی آپ کے کچھ معمولات تھے جو آخری وقت تک قائم رہے۔ بہ حیثیت شاعر مشاعروں میں عامیانہ شرکت سے ہمیشہ اجتناب رہا۔ بربنائے تعلقات کبھی کبھی چلے بھی جاتے تھے مگر ایسا شاذ ہی ہو اکرتا تھا۔ جب کوئی غزل یا منقبت کہتے تو کسی کو سنانے سے پہلے آستانہ وارث پر حاضر ہوکر لوگوں کو سنا تے پھر دوسروں کو سناتے تھے۔ تمام عمر اہل دنیا کی مدح سرائی نہیں کی اور نہ اس کی تعظیم کو سراہا۔ ملنے والے سے ملنے میں سبقت کرتےاور وضع داری کے ہمیشہ پابند رہے۔
1905ء میں وارث علی شاہ نے اس دنیائے فانی سے رحلت فرمایا اور اپنے محبوب حقیقی سے جا ملے۔ اپنے مرشد برحق کے وصال فرمانے کے بعد اکتیس سال زندہ رہے اور 24 نومبر 1936ء میں خود بھی پردہ فرمایا اور شاہ اویس کے گورستان دیوہ ضلع بارہ بنکی میں دفن ہوئے۔