Font by Mehr Nastaliq Web
Bedam Shah Warsi's Photo'

بیدم شاہ وارثی

1876 - 1936 | اناو, بھارت

معروف نعت گو شاعر اور ’’بے خود کئے دیتے ہیں انداز حجابانہ‘‘ کے لیے مشہور

معروف نعت گو شاعر اور ’’بے خود کئے دیتے ہیں انداز حجابانہ‘‘ کے لیے مشہور

بیدم شاہ وارثی کے اشعار

باعتبار

مرا سر کٹ کے مقتل میں گرے قاتل کے قدموں پر

دم آخر ادا یوں سجدۂ شکرانہ ہو جائے

ساغر کی آرزو ہے نہ پیمانہ چاہیے

بس اک نگاہ مرشد میخانہ چاہیے

مجھی کو دیکھ لیں اب تیرے دیکھنے والے

تو آئینہ ہے مرا تیرا آئینہ ہوں میں

نہ تو اپنے گھر میں قرار ہے نہ تری گلی میں قیام ہے

تری زلف و رخ کا فریفتہ کہیں صبح ہے کہیں شام ہے

کیسے کہہ دوں کہ غیر سے ملیے

ان کہی تو کہی نہیں جاتی

شکوہ ہے کفر اہل محبت کے واسطے

ہر اک جفائے دوست پہ شکرانہ چاہیے

خنجر کیسا فقط ادا سے

تڑپا تڑپا کے مار ڈالا

ہم رنج بھی پانے پر ممنون ہی ہوتے ہیں

ہم سے تو نہیں ممکن احسان فراموشی

ہوش نہ تھا بے ہوشی تھی بے ہوشی میں پھر ہوش کہاں

یاد رہی خاموشی تھی جو بھول گئے افسانہ تھا

ستم گر تجھ سے امید کرم ہوگی جنہیں ہوگی

ہمیں تو دیکھنا یہ تھا کہ تو ظالم کہاں تک ہے

عشق کی ابتدا بھی تم حسن کی انتہا بھی تم

رہنے دو راز کھل گیا بندے بھی تم خدا بھی تم

میرے نالہ سن کے فرماتے ہیں وہ

یہ اسی کی دکھ بھری آواز ہے

نہیں تھمتے نہیں تھمتے مرے آنسو بیدمؔ

راز دل ان پہ ہوا جاتا ہے افشا دیکھو

عشق ادا نواز حسن حسن کرشمہ ساز عشق

آج سے کیا ازل سے ہے حسن سے ساز باز عشق

صدقے اے قاتل ترے مجھ تشنۂ دیدار کی

تشنگی جاتی رہی آب دم شمشیر سے

تم خفا ہو تو اچھا خفا ہو

اے بتو کیا کسی کے خدا ہو

ہلکی سی اک خراش ہے قاصد کے حلق پر

یہ خط جواب خط ہے کہ خط کی رسید ہے

اے چشم تمنا تری امید بر آئے

اٹھتا ہے نقاب رخ جانانہ مبارک

گل کا کیا جو چاک‌ گریباں بہار نے

دست جنوں لگے مرے کپڑے اتارنے

وہ سر اور غیر کے در پر جھکے توبا معاذ اللہ

کہ جس سر کی رسائی تیرے سنگ آستاں تک ہے

سجا کر لخت دل سے کشتیٔ چشم تمنا کو

چلا ہوں بارگاہ عشق میں لے کر یہ نذرانہ

بلبل کو مبارک ہو ہوائے گل و گلشن

پروانے کو سوز دل پروانہ مبارک

کچھ نہ ہو اے انقلاب آسماں اتنا تو ہو

غیر کی قسمت بدل جائے میری تقدیر سے

نہ قرب گل کی تاب تھی نہ ہجر گل میں چین تھا

چمن چمن پھرے ہم اپنا آشیاں لیے ہوئے

عاشق نہ ہو تو حسن کا گھر بے چراغ ہے

لیلیٰ کو قیس شمع کو پروانہ چاہیے

اف رے باد جوش جوانی آنکھ نہ ان کی اٹھتی تھی

مستانہ ہر ایک ادا تھی ہر عشوہ مستانہ تھا

مرا سر کٹ کے مقتل میں گرے قاتل کے قدموں پر

دم آخر ادا یوں سجدۂ شکرانہ ہو جائے

کجی میری قسمت کی پھر دیکھنا

ذری اپنی ترچھی نظر دیکھئے

اسرار محبت کا اظہار ہے نا ممکن

ٹوٹا ہے نہ ٹوٹے گا قفل در خاموشی

زمیں سے آسماں تک آسماں سے لا مکاں تک ہے

خدا جانے ہمارے عشق کی دنیا کہاں تک ہے

کل غیر کے دھوکے میں وہ عید ملے ہم سے

کھولی بھی تو دشمن نے تقدیر ہم آغوشی

عشق ادا نواز حسن حسن کرشمہ ساز عشق

آج سے کیا ازل سے ہے حسن سے ساز باز عشق

فرقت میں ترے غم و الم نے

تنہا مجھے پا کے مار ڈالا

اسے بھی ناوک جاناں تو اپنے ساتھ لیتا جا

کہ میری آرزو دل سے نکلنے کو ترستی ہے

مجھی سے پوچھتے ہو میں ہی بتلا دوں کہ تم کیا ہو

تجلی طور سینا کی میرے گھر کا اجالا ہو

بیدمؔ تمہاری آنکھیں ہیں کیا عرش کا چراغ

روشن کیا ہے نقش کف پائے یار نے

غیر کا شکوہ کیوں کر رہتا دل میں جب امیدیں تھیں

اپنا پھر بھی اپنا تھا بیگانہ پھر بیگانہ تھا

قفس میں بھی وہی خواب پریشاں دیکھتا ہوں میں

کہ جیسے بجلیوں کی رو فلک سے آشیاں تک ہے

میں غش میں ہوں مجھے اتنا نہیں ہوش

تصور ہے ترا یا تو ہم آغوش

کچھ رہا بھی ہے بیمار غم میں

اب دوا ہو تو کس کی دوا ہو

منتظر ہے آپکے جلوہ کی نرگس باغ میں

گل گریباں چاک شبنم اک طرف نم دیدہ ہے

اس گل رعنا نے ہنس کر بات کی

غنچۂ خاطر ہمارا کھل گیا

عشق کے آثار ہیں پھر غش مجھے آیا دیکھو

پھر کوئی روزن دیوار سے جھانکا دیکھو

اس کے ہوتے خودی سے پاک ہوں میں

خوب ہے بے خودی نہیں جاتی

کل غیر کے دھوکے میں وہ عید ملے ہم سے

کھولی بھی تو دشمن نے تقدیر ہم آغوشی

اس سیہ بخت کی راتیں بھی کوئی راتیں ہیں

خواب راحت بھی جسے خواب پریشاں ہو جائے

داغ دل سینے میں آہوں سے نمایاں کرنا

ہم سے سیکھے شب غم کوئی چراغاں کرنا

غیر ہی کیا بے رخی سے آپ کی

آج بیدمؔ بھی بہت بے دل گیا

ہلکی سی اک خراش ہے قاصد کے حلق پر

یہ خط جواب خط ہے کہ خط کی رسید ہے

گر قلزم عشق ہے بے ساحل اے خضر تو بے ساحل ہی سہی

جس موج میں ڈوبے کشتئ دل اس موج کو تو ساحل کر دے

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

Recitation

بولیے