شفیع بہاری کا تعارف
تخلص : 'شفیع'
اصلی نام : محمد شفیع
پیدائش : 01 Aug 1878 | بہار شریف, بہار
وفات : 01 Dec 1950 | دوسرا, بنگلہ دیش
رشتہ داروں : احقر بہاری (مرشد), شاہ امین احمد فردوسی (والد)
حافظ سید شاہ محمد شفیع فردوسی حضرت مخدوم جہاں شیخ شرف الدین احمد یحییٰ منیری کے معروف سجادہ نشین جناب حضور سید شاہ امین احمد فردوسی بہاری کے صاحبزادے ہیں۔
آپ کی پیدائش 18 اگست 1878ء موافق 1296ھ میں خانقاہ معظم، بہار شریف میں ہوئی۔ آپ نے حفظ قرآن کی تکمیل حافظ عبداللہ صاحب کی اور عربی و فارسی کی ابتدائی تعلیم مولانا سید امیر الدین سیدی سے حاصل کی لیکن تکمیل علوم ظاہری و باطنی اپنے والد شاہ امین احمد بہاری سے ہوئی۔ والد ماجد کے علاوہ مولانا فاضل سے بھی ارشاد اور خلافت حاصل کیا، اسی وقت مدرسہ عزیزیہ، بہار شریف میں معلم کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔
شعر و سخن کا ذوق شفیع کو فطری تھا، ابتدا میں اصلاح سخن بھی اپنے والد بزرگوار سے لیتے رہے۔ والد کے انتقال کے بعد احقر بہاری سے بھی اصلاح لی۔ احقر ازل لکھنوی کے شاگرد تھے اور ازل صبا کے اور صبا خواجہ حیدر علی آتش کے شاگرد تھے۔
شفیع کو بہار کے مشہور صوفی شاعر حضرت شاہ اکبر داناپوری کا کلام بہت پسند تھا۔ مجلس سماع میں حضرت اکبر کے کلام پر وہ خوب کیفیت فرمایا کرتے تھے، ان کے کلام میں حضرت اکبر کا رنگ نمایاں طور پر ملتا ہے۔
شفیع بہاری اپنے صوفیانہ ماحول کی وجہ سے تصوف کے رنگ میں رنگ چکے تھے، ان کے کلام میں صوفیانہ خیالات کا در آنا فطری بات تھی، کلام میں صفائی، روز مرہ کے محاورے کا استعمال اور محاورہ بندی، اشعار میں زبان کی رنگا رنگی کے ساتھ تصوف کی چاشنی بھی ہے۔
شفیع بہاری فارسی زبان اچھی جانتے تھے، بعض کتب کا فارسی سے اردو میں ترجمہ بھی کیا، مضامین بھی لکھا کرتے تھے جو رسالہ الامین (بہار شریف) میں پابندی سے شائع ہوتے تھے، بہار شریف اور ڈھاکہ کے ادبی و علمی مشاعروں میں شرکت بھی کی ہے، آپ کا شعری مجموعہ، خطوط کا مجموعہ اور مضامین کا مجموعہ نہایت قیمتی سرمایہ ہے۔
شفیع بہاری تقسیم ہند کے بعد ڈھاکہ چلے گئے تھے وہاں ان کے مریدین و معتقدین اچھے خاصے پائے جاتے تھے، اسی درمیان آپ کا انتقال 4 ربیع الاول 1370ھ موافق 14 دسمبر 1950ء کو ہوا اور ڈھاکہ کے مشہور بزرگ شاہ محمد صدیق کے مقبرے کے احاطے میں سپرد خاک ہوئےہوئے، جب تک آپ ڈھاکہ میں مقیم رہے وہاں کی ادبی و علمی شمع آپ کے دم سے زندہ تھی۔