شاہ امیرالدین فردوسی کا تعارف
حضرت شاہ امیرالدین فردوسی خانقاہ معظم حضرت مخدوم جہاں، بہار شریف کے سجادہ نشیں ہیں، آپ کی پیدائش 9 محرم الحرام 1217ھ موافق 1803ء میں خانقاہ معظم میں ہوئی، آپ حضرت شاہ ولی اللہ ابن شاہ علیم الدین فردوسی کے صاحبزادے ہیں، ابتدائی تعلیم و تربیت بزرگوں کے زیر سایہ ہوئی، علوم متعارفہ کی تعلیم مولانا سید عزیزالدین قطب الدین عرف بساون سے حاصل کی، کی ابتدائی زندگی ناز و نعم میں گزری، آزاد روش انسان تھے لیکن جب حضرت شاہ حسین علی شطاری کے دست حق پرست پر بیعت ہوئے تو ان کی زندگی بالکل بدل گئی اور طلب حق کی طرف ہمہ تن متوجہ ہوئے، آپ کو حضرت شاہ ابوالحسن بن خواجہ ابوالبرکات ابوالعلائی اور حضرت حمیدالدین راجگیری سے بھی ارشاد طریقت حاصل تھا، گیارہ سال کی عمر سے ہی شعر و سخن کا ذوق پیدا ہوا، فارسی میں دست گاہ حاصل تھی اس لئے پہلے فارسی میں شاعری کی اور اس کے بعد اردو میں بھی ذوق شعری کو پروان چڑھایا، فارسی میں ظلوم اور اردو میں وجد تخلص اختیار کیا، اپنے شعر پرکسی سے اصلاح نہیں لیا، آپ فطری شاعر تھے، تصوف سے گہرا لگاؤ تھا، آپ کے کلام میں حقائق و معارف کا گہرا امتزاج ہے، آپ کا وصال 5 جمادی الاول جمعہ کی شب 1287ھ موافق 1868ء میں ہوا، بڑی درگاہ میں حضرت مخدوم جہاں کے پائیں حلقۂ سجادگان میں مدفون ہیں، تصوف میں عشق و سرمستی کی بڑی اہمیت ہے، اسی سے منازل سلوک طے ہوتے ہیں، اس کیفیت کو حضرت وجد کے اشعار میں دیکھیے، صوفیانہ شاعری کی حیثیت سے وجد بہاری ایک منفرد مقام کے مالک ہیں، ان کی شاعری میں صوفیانہ افکار تنوع کے ساتھ جلوہ گرہے، وجد کے یہاں میر کا درد و سوز بھی ہے اور درد کا تصوف بھی۔