ولی وارثی کا تعارف
میر ولی وارثی امر تسر (مشرقی پنجاب) میں پیدا ہوئے۔ سلسلہ وارثیہ میں بیعت سے مشرف ہوئے۔ شعرو شاعری سے کافی ذوق و شوق رکھتے تھے۔ اس کے علاوہ آپ نے ہندو پاک کے بٹوارہ سے بہت زیادہ متاثر ہوکر ناول بھی لکھے جس میں معاشرہ کی اصلاح کے لیے قلم اٹھایا گیا۔ آپ نے نظم اور نظر دونوں میں کتابیں لکھی ہیں۔ ان کتابوں میں جملہ معاشری برائیوں کو اور سماجی نقائص کو منظر عام پر لایا گیا ہے تاکہ معاشرہ ان پر سنجیدگی سے غور کرسکے اور اصلاحی پہلو اختیار کر سکیں۔ میر ولی وارثی صاحب کا مقصود یہ تھا کہ معاشرہ صاف ستھرا ہو اور انسانی ہمدردی کو دلوں میں جگہ ملے۔ انہو نے پاکستان بنتے دیکھا۔آپ کے کلام پر تبصرہ کرتے ہوئے پروفیسر شمس العلماء مولوی محمد حسین آزاد دہلوی اور حضرت اختر شیرانی فرماتے ہیں۔
آپ کی شاعرانہ حسن کاریوں سے ہندوستان اور علی الخصوص صوبہ پنجاب کے ادبی حلقے عام طور پر باخبر اور متعارف ہیں۔ اس نوجوان شاعر کا وطن فخر سرزمین امر تسر کو حاصل ہے اور وہ امر تسر کو ’’رخ بہ تماشاہ گہ ہناز آورم ‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔ آپ کی مندرجہ ذیل کتابیں چھپ چکی ہیں۔ ان میں ایک نسخہ ’’بہار جاوداں‘‘ جس کو پنجاب اکیڈمی ہال بازار، امرتسر (مشرقی پنجاب) نے چھاپاہے۔ اس بہار جاوداں سے وارثی صاحب کا نمونۂ کلام قارئین کرام کے پیش نظر ہے۔ ان کی کتابیں مندرجہ ذیل ہیں۔
(۱)گرداب سے ساحل تک (۲) قحبہ خانہ میں ایک رات (۳) ادھورے گیت (۴) بہار جاوداں میر صاحب امرتسر کے ایک معزز گھرانے کے فرد تھے ۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے اور امر تسر کے سربر آوردہ اہل علم کے تلامذہ میں سے تھے۔ دینی اور عربی علوم استاذ انکل حضرت محمد عالم آسی سے حاصل کیے تھے۔ فن شاعری میں حکیم الشعراء فیروز الدین فیروز طغرائی سے فیض یاب ہوئے تھے۔ تقسیم ملک کے بعد موہنی روڈ پر قیام پذیر رہے ۔ غالباً 1990 میں وفات پائی۔