Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama
noImage

ابوبکر کلاباذی

934 - 990 | بخارا, ازبکستان

چوتھی صدی ہجری کے حنفی فقیہ، متکلم اور صوفی تھے، جو اپنی تصنیف ’’التعرف لمذہب اہل التصوف‘‘ کی وجہ سے مشہور ہیں۔

چوتھی صدی ہجری کے حنفی فقیہ، متکلم اور صوفی تھے، جو اپنی تصنیف ’’التعرف لمذہب اہل التصوف‘‘ کی وجہ سے مشہور ہیں۔

ابوبکر کلاباذی کے صوفی اقوال

باعتبار

فنا کی حالت میں طالبِ حق تمام دنیوی خواہشات اور انسانی صفات سے بلند ہو جاتا ہے، وہ اپنی ذات سے مکمل طور پر فنا ہو کر خدا کی ذات میں مدغم ہو جاتا ہے۔

دنیا سے علیحدگی، روح کو اس سے منحرف کرنا، تمام مستقر اجسام کو چھوڑ دینا، مسلسل سفر میں رہنا، نفس کو اس کی لذتوں سے انکار کرنا، اخلاق کی صفائی، ضمیر کا پاکیزہ ہونا، سینے کی وسعت اور رہنمائی کی صفت ولی پہچان ہے۔

خیالات کی چار قسمیں ہیں۔

خدا کی طرف سے، فرشتے کی طرف سے، نفس کی طرف سے اور شیطان کی طرف سے، وہ خیال جو خدا کی طرف سے ہوتا ہے نصیحت ہوتا ہے، جو فرشتے کی طرف سے ہوتا ہے اطاعت کا داعیہ ہوتا ہے، جو نفس کی طرف سے ہوتا ہے خواہش کی جستجو ہوتی ہے اور جو شیطان کی طرف سے ہوتا ہے نافرمانی کی آرائش ہوتی ہے۔

ایمان کے عناصر چار ہیں۔

توحید بغیر کسی حد کے، ذکر بغیر کسی وقفے کے، حالت بغیر کسی وضاحت کے اور وجد بغیر کسی لمحے کے۔

عقیدۂ توحید یہ ہے کہ

’’خدا ایک ہے، تنہا ہے، واحد ہے، ابدی ہے، ہمیشہ رہنے والا ہے، علم رکھنے والا ہے، قادر ہے، زندہ ہے، سننے والا ہے، دیکھنے والا ہے، طاقتور ہے، عظیم ہے، بلند ہے، بڑا ہے، سخی ہے‘‘ وہ ان صفات سے موصوف ہے جن کے ساتھ اس نے اپنے آپ کو موسوم کیا ہے، اس کے سوا کوئی ابدی نہیں اور اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ نہ جسم ہے، نہ شکل ہے، نہ صورت ہے، نہ شخص ہے، نہ عنصر ہے، نہ حادثہ ہے۔

ولی ہونے کی صفات یہ ہیں۔

دنیا سے کنارہ کشی، نفس کو دنیا کی رغبت سے پھیرنا، جسمانی ٹھکانوں کو ترک کرنا، مسلسل سفر میں رہنا، نفسانی خواہشات کا انکار کرنا، کردار کو پاکیزہ بنانا، ضمیر کو صاف رکھنا، دل کا کشادہ ہونا اور قیادت کی صلاحیت رکھنا۔

خدا نے ہمیں اپنی معرفت کے لیے خود ہی پیدا کیا اور ہمیں اپنی پہچان کی راہ بھی خود ہی دکھائی، تاکہ معرفت کی گواہی، معرفت سے، معرفت کے ذریعے ہی ظاہر ہو اس وقت جب عارف کو معرفت سکھائی گئی اس ذات کی طرف سے جو خود معرفت کا مقصود ہے۔

محبت کی دو قسمیں ہیں۔

ایک وہ محبت جو سکون بخشتی ہے، جو خاص و عام دونوں میں پائی جاتی ہے اور دوسری وہ محبت جو وجد و بےخودی میں لے جاتی ہے، جو صرف خاصانِ خدا کا نصیب ہوتی ہے، یہی وہ راہ ہے جو براہِ راست خدا تک لے جاتی ہے۔

عارف کا انجام وہی مقام ہے جہاں وہ تھا، جیسا وہ تھا، جب وہ نہ تھا! یعنی فنا کے بعد بقا کی وہ حالت کہ وجودِ حقیقی کے سوا کوئی شئے باقی نہ رہے، جب عارف خدا کی طرف سے عطا کردہ معرفت کو پا کر اپنے فرض کو ادا کر لیتا ہے، تو وہ حقیقت میں اشیا سے ہٹ کر خدا کی طرف رجوع کرتا ہے اور یہی اس کی معرفت کی تکمیل اور روحانی واپسی ہے۔

ایمان باللہ، دراصل اس کی الوہیت کے مشاہدے کا نام ہے۔

محبت لذت ہے مگر خدا کے ساتھ کوئی لذت نہیں، کیوں کہ حقیقت کے مقامات حیرت، سپردگی اور ششدر رہ جانا ہیں، بندے کی خدا سے محبت دل میں ایسا ادب ہے جو کسی اور کی محبت کو جگہ نہیں دیتا اور خدا کی بندے سے محبت یہ ہے کہ وہ اسے آزمائش میں مبتلا کرتا ہے تاکہ وہ کسی کے قابل نہ رہے سوائے اس کے، یہی مفہوم ہے اس کے ارشاد کا اور میں نے تجھے اپنے لیے چن لیا ہے۔

صوفی فنا کے حال میں داخل ہونے کے بعد کبھی اپنی خودی کی طرف واپس نہیں لوٹتا۔

ذکر غفلت کو زائل کر دیتا ہے اور جب غفلت دور ہو جائے، تو تُو ذاکر ہے، خواہ خاموش ہی کیوں نہ ہو۔

خدا سے یکجائی کے لیے ہر چیز سے کلی بے تعلقی (تجرید) ضروری ہے، تجرید کا مطلب یہ ہے کہ ظاہر میں ظاہری اسباب و حادثات سے اور باطن میں ہر قسم کی اجرت و بدلے کی توقع سے دل کو خالی کر لیا جائے۔

جس قدر انسان کا باطن پاک ہوتا ہے، اسی قدر اس کا مقام بلند اور مرتبہ عظیم ہوتا ہے لیکن وہ اسی قدر زیادہ مشقت اٹھاتا ہے، زیادہ اخلاص سے عمل کرتا ہے اور خدا سے زیادہ ڈرتا ہے، یہی باطنی طہارت کی پہچان ہے، بلندی کے ساتھ عاجزی، مرتبے کے ساتھ مجاہدہ اور قرب کے ساتھ خشیت۔

ایک صوفی نے فرمایا کہ

معرفت کی دو قسمیں ہیں: معرفتِ حقیقت اور معرفتِ ذات۔

معرفتِ حقیقت یہ ہے کہ بندہ خدا کی وحدانیت کو اس کے ان صفاتی مظاہر کے ذریعے پہچانے جو اس نے خود ظاہر فرمائے ہیں اور معرفتِ ذات یہ ہے کہ بندہ اس حقیقت کو جان لے کہ ذاتِ حق کی معرفت تک رسائی ممکن ہی نہیں کیوں کہ خدا کی ذات نہایت مستور اور اس کی ربوبیت کی تہہ تک رسائی ناممکن ہے۔

جو شخص باطن میں جتنا زیادہ پاک ہوتا ہے، اس کا مقام اتنا ہی بلند اور مرتبہ اتنا ہی اشرف ہوتا ہے، چنانچہ وہ نہایت محنت سے عمل کرتا ہے، پورے اخلاص کے ساتھ عبادت بجا لاتا ہے اور اس کے دل میں خدا کا زبردست خوف ہوتا ہے۔

عقلی علم ایک عام اور محدود علم ہے، جو صرف انسانی فہم و شعور تک محدود رہتا ہے، یہ دنیاوی اشیا اور مخلوقاتِ خداوندی تک محدود ہوتا ہے، خالقِ حقیقی سے اس کا کوئی واسطہ نہیں، جب کہ معرفت ایک اعلیٰ تر علم ہے جو براہِ راست خالق اور اس کی صفاتِ الٰہیہ سے تعلق رکھتا ہے، یہ وہ نور ہے جو محض عطائے الٰہی سے نصیب ہوتا ہے۔

وجد وہ بشارت ہے جو خدا اپنے کسی بندۂ عارف کو اپنی دیدارگاہ کے مرتبے پر فائز کرنے سے پہلے عطا فرماتا ہے۔

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

Recitation

بولیے