ابو بکر واسطی کے صوفی اقوال

عبادت کا سب سے اعلیٰ درجہ لمحوں کی نگہبانی ہے، یعنی بندہ اپنی حد سے باہر نہ دیکھے، اپنے رب کے سوا کسی اور پر غور نہ کرے اور اپنے موجودہ لمحے کے سوا کسی اور سے دل نہ لگائے۔

معرفت اس وقت تک کامل نہیں ہوتی جب تک بندے کے دل میں خدا سے خوشی یا اس کی حاجت باقی رہتی ہے۔

جو حقِ حقیقی کا شناسا ہو جاتا ہے، وہ ماسویٰ خدا سے کلیتاً جدا ہو جاتا ہے، اس پر خاموشی طاری ہو جاتی ہے، اس کی انا مٹ جاتی ہے اور صفاتِ بشریہ فنا کے پردے میں چھپ جاتی ہیں۔


دنیا کو ترک کر دو، کیوں کہ وہ خدا کی نگاہ میں ایک ذرے کے برابر بھی وقعت نہیں رکھتی۔

ذکرِ الٰہی کا مطلب ہے غفلت کی وادی سے نکل کر مشاہدۂ حق کے میدان میں قدم رکھنا، خوف پر فتح پانا اور خدا کی شدید محبت میں ڈوب جانا۔

ابتدا میں صوفیوں کو حق کے روشن اشارے عطا ہوئے پھر یہ محض حرکات و سکنات تک محدود ہوگیے اور اب صرف حسرت و اندوہ باقی رہ گیا ہے۔

کرامات ہوش و سکون کی حالت میں ظاہر ہوتی ہیں، نہ کہ جذب و مستی کے عالم میں، کیوں کہ اؤلیائے کرام اس کی سلطنت کے والی اور کائنات کے نگران ہوتے ہیں، جنہیں خدا نے اپنے اختیار سے اس کارِ جہاں کا نگہبان بنایا ہے۔

راہ حق میں نہ دنیا باقی رہتی ہے، نہ مخلوق اور نہ ہی راہ کی کوئی حقیقت رہتی ہے، سب کچھ وہی ہے بس وہی، سوا اس کے کچھ نہیں۔

شروع میں ولی کی ولایت عبادت سے پالی جاتی ہے، جب وہ جوان ہوتا ہے تو وہ خدا کی پردے داری میں پلتا ہے پھر خدا اسے اس کی سابقہ صفات کی طرف واپس لے آتا ہے اور آخرکار وہ اسے اس بات کا ذائقہ چکھاتا ہے کہ ہر وقت وہی اس کا رازق اور مونس ہے۔

استقامت وہ خصوصیت ہے جو صفات کو مکمل کرتی ہے اور جس کی کمی انہیں بدمزہ یا بدصورت بنا دیتی ہے۔

Noble character وہ ہے کہ انسان نہ دوسروں سے جھگڑتا ہے اور نہ ہی دوسروں کی جانب سے جھگڑا کیا جاتا ہے کیوں کہ وہ خدا کے بارے میں مکمل اندرونی علم رکھتا ہے۔

جو شخص خدا کا براہ راست علم رکھتا ہے، وہ دنیا سے کٹ جاتا ہے، اس کی زبان بند ہو جاتی ہے اور اس کی صلاحیتیں مفلوج ہو جاتی ہیں۔

تقویٰ یہ ہے کہ انسان اپنے تقویٰ سے بچ جائے یعنی اپنے تقویٰ کا شعور ترک کر دے۔

خوف خدا اور بندے کے درمیان پردہ ہے اور اسی طرح کہا گیا ہے کہ خوف اور امید، نفس کے لگام ہیں تاکہ اسے اپنی خواہشات کی بے راہ روی پر چھوڑا نہ جائے۔

سچی توبہ وہ ہے جس میں گناہ کا کوئی نشان نہ رہ جائے، خواہ وہ چھپے ہوئے ہوں یا ظاہر، جس کی توبہ سچی ہوتی ہے، وہ صبح و شام اپنے حال کی فکر نہیں کرتا۔

تحفے سے حاصل ہونے والی لذت سے بچو، کیوں کہ یہ لوگوں کے لیے پردہ ہے جو صفائی اور طہارت کے حامل ہیں۔

اپنی تسکین کو پورے طور پر استعمال کرو اور تسکین کو تمہارے اوپر قابو نہ پانے دو تاکہ اس کی مٹھاس اور منظر تمہیں اس حقیقت سے پردہ نہ ڈالے جس میں تم مشغول ہو۔

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere