انوری کا تعارف
اوحدالدین انوری چھٹی صدی ہجری کے ایک نہایت مشہور فارسی گو شاعر تھے۔ 1126ء میں پیدا ہوئے۔ ان کا نام محمد بن محمد یا علی بن محمد اور تخلص انوری تھا۔ علوم مختلفہ پر فاضلانہ دسترس رکھنے کی وجہ سے’’ اوحدالدین‘‘ کا لقب پایا۔ جائے پیدائش خادران، بلخ ہے۔ اسی مناسبت سےانہوں نے پہلے اپنا تخلص خادری رکھا مگر اپنے استاد عماد ثانی کے کہنے پر اسے بدل کر انوری رکھ دیا۔ مدرسہ منصوریہ میں اکتاب علم کیا۔ اس زمانہ کے تمام حکما اور فلاسفہ پر غالب آ کر حکیم اوحد الدین کے نام سے مشہور ہوئے۔ انوری طبع بلند اور فکر رسا شاعر تھے اور دقیق اور مشکل مضمون کو رواں الفاظ اور مروج لہجہ میں نہایت خوبصورتی سے ادا کر دیا کرتے تھے۔ انوری کا ایک قصہ کافی مشہور ہے کہ ایک بار بازار سے گزر رہا تھا تو اس نے ایک آدمی کو دیکھا جو اس کا کلام لوگوں کو پڑھ کر سنا رہا ہے۔ انوری نے اس سے پوچھا کہ یہ تم کس شاعر کا کلام پڑھ رہے ہو؟ کیا تم نے اسے کبھی دیکھا ہے؟ اس آدمی نے جواب دیا کہ یہ میرا کلام ہے اور میرا نام انوری ہے۔ انوری نے جواب دیا کہ بھائ ! شعر چور تو ہم نے بہت دیکھے تھے، مگر شاعر چور کبھی نہ دیکھا تھا۔ (ماخوذ کِشتِ زعفران) زر و مال کی مطلق پرواہ نہیں کی۔ اپنی عمر فقر و فاقہ میں بسر کرتے تھے۔ ایک دفعہ حسب اتفاق سلطان سنجر سلجوقی اور ابو الفرح سنجری ملک الشعرا کا لشکر مقام زاکان میں جو مشہد کے قریب واقع ہے آ کر ٹھہرا۔ اس کی شان و شوکت دیکھ کر ارادہ کیا کہ زمانہ کی رفتار کے موافق منطق و فلسفہ سے باز آ کر شعر و سخن پر مائل ہوں۔ چنانچہ اسی شب سلطان سنجر سلجوقی کی شان میں قصیدہ لکھا جس پر بہت کچھ انعام و اکرام ملا۔ یہاں تک کہ خود بادشاہ ان کے گھر آیا ۔اہل سخن انوری کو پیغمبر سخن مانتے ہیں۔ انوری کی وفات 1189ء میں ہوئی۔